کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں شیر اڑ سکتا تھا۔ اور اس وقت کوئی بھی شے اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی تھی۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے شکار کیے ہوئے جانوروں کے ڈھانچوں کی ہڈیوں کو توڑے۔ وہ ان کے ڈھانچے جوں کے توں رکھنا چاہتا تھا ( وہ اسی طرح اپنی اڑنے کی صلاحیت برقرار رکھ سکتا تھا)۔ لہٰذا اس نے ان کی رکھوالی کے لیے دو سفید کوؤں کا ایک جوڑا بنایا۔ انہیں، اس نے ہڈیوں کے گرد بنائے گئے حصار کی دیوار پر بٹھایا اور خود شکار کرنے کے لیے نکل گیا۔
اب یہ اس کا معمول بن چکا تھا، لیکن ایک دن بڑا مینڈک ادھر آن پہنچا۔ اس نے تمام ہڈیوں کو ٹکڑے کر دیا، ’’آدمی اور جانور زیادہ زندہ کیوں نہیں رہتے؟‘‘ اس نے کوؤں سے کہا، ’’جب وہ آئے تو اسے یہ بھی کہنا کہ میں ادھر جوہڑ کے کنارے رہتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو پھر اسے خود وہاں آنا ہو گا۔‘‘
ادھر شیر کچھ آرام کرنے کے لیے گھاس پر لیٹا ہوا تھا، اس نے اڑنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب وہ سخت غصّے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حصار پر یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ہے لہٰذا وہ گھر کی طرف چل دیا۔
’’تم نے کیا کیا ہے کہ میں اب اڑ نہیں سکتا؟‘‘ وہ جب گھر پہنچا تو اس نے کوؤں سے پوچھا۔
’’کوئی یہاں آیا تھا اور اس نے ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیے۔‘‘ کوؤں نے جواب دیا اور بولے، ’’اگر تم اس سے ملنا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جوہڑ کے کنارے مل سکتا ہے!‘‘
شیر جب وہاں پہنچا تو مینڈک جوہڑ میں پانی کے کنارے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ہو!‘‘ وہ شیر کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں بولا اور فوراً پانی میں غوطہ لگا کر جوہڑ کے دوسرے کنارے پر جا نکلا۔
بچوں کی مزید کہانیاں
شیر بھی چکر لگا کر وہاں پہنچ گیا، لیکن مینڈک دوبارہ غوطہ لگا گیا۔ بڑی کوشش کے باوجود شیر جب اسے نہ پکڑ سکا تو مایوس ہو کر گھر واپس آگیا۔
کہا جاتا ہے کہ تب سے آج تک شیر اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اور سفید کوّے بھی تب سے بالکل بہرے ہوچکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا تھا کہ ’’اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
کیا تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ہوا کیا تھا؟
(افریقی لوک ادب سے انتخاب)