منگل, ستمبر 17, 2024
اشتہار

سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

سلاس ایک پھرتیلا، چمکیلا اور لچکیلا سانپ تھا۔ گہرے سبز رنگ کا سلاس موزمبیق اور انگولا کے درمیان واقع بہت بڑے جنگل میں رہتا تھا، جہاں کیلے کے درختوں کی بہتا ت تھی۔

کیلے کے درختوں پر بہت بڑے بڑے پتے تھے۔ یہ کیلے کے درخت ہمارے ایشیائی درختوں سے کہیں بڑے ہوتے ہیں۔ سلاس کے مشاغل میں سے ایک یہ تھا کہ وہ خود کو کسی درخت کے گرد لپیٹ کر دم سادھ لیتا اور یوں لگتا جیسے وہ بھی کسی درخت پر اگی ہوئی بھوری شاخ ہے۔ کبھی وہ اپنے جسم کے بل کھول کر ایک لمبی بھوری رسی کی طرح کسی درخت سے لٹک جاتا اور بندروں کے بچوں کو ناریل کا فٹ بال بنا کر کھیلتے دیکھتا۔ اس کی چمکتی موتیوں جیسی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر جوش بھر جاتا۔ اس کی دو شاخہ زبان کبھی اندر اور کبھی باہر لہراتی رہتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی بچوں کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لے۔ لیکن بچوں کی ماں جب بھی دیکھتی کہ وہ بچوں کے قریب آ رہا ہے تو شور مچا دیتی "بچو فوراً بھاگو، سلاس آ رہا ہے، وہ ڈس لیتا ہے۔ اسی طرح سلاس جب رینگتا ہوا لمبے لمبے بانس کے درختوں کے پاس جاتا جہاں شیر کے بچے چھپا چھپی کا کھیل کھیل رہے ہوتے، تو ان کی ماں سلاس کو دیکھ کر فوراً غراتی اور شور مچا دیتی کہ "خبردار! سلاس آ رہا ہے۔” شیرنی ماں کی یہ آوازیں سن کر بچے فوراً ادھر ادھر چھپ جاتے یا ماں کے ساتھ چمٹ جاتے۔ کئی مرتبہ یہ ہوا کہ سلاس کسی درخت کے تنے پر رینگتا ہوا چڑھا تو طوطوں نے ٹیں ٹیں کر کے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اسی ٹیں ٹیں میں بڑے طوطے اور ان کی بچے اڑ کر دوسرے درختوں کی شاخوں پر جا بیٹھتے۔ بے چارے سلاس کو قطعی سمجھ نہ آتی کہ وہ ان جانوروں کا اعتماد جیتنے کے لئے کیا کرے۔ یقینا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو ڈسے۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ ہمہ وقت تنہا رہتا ہے، کوئی تو ہو جو اس کے ساتھ کھیلے، جس سے اس کا دل بھی لگ جائے۔ وہ خود کو ہمیشہ تنہا محسوس کرتا تھا۔

وہ ایک ایسا دن تھا جب گرمی اپنے عروج پر تھی۔ جنگل کے سارے جانور گرمی سے پریشان اور بے حال ہو کر اپنے اپنے گھونسلوں اور بلوں میں دبکے پڑے تھے۔ تمام بندر ایک ناریل کے درخت کے چھاؤں میں سوئے ہوئے تھے۔ سلاس کیلے کے درخت کی ایک شاخ پر لپٹا ہوا نیند کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا۔ بڑے مزے کی نیند تھی کیونکہ جنگل اتنا خاموش تھا کہ کسی پتے کے کھڑکھڑانے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک سلاس کی آنکھ ایک بہت ہی باریک چیخ سے کھل گئی۔ اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ ابھی وہ دوبارہ آنکھیں موندنے ہی لگا تھا کہ اس نے وہی آواز سنی۔ اور یہ آواز اسے کیلے کے درخت کے اوپر سے آ رہی تھی۔ اس نے اپنا چپٹا اور ملائم سر اٹھایا اور اپنی چمکیلی موتیوں جیسی آنکھوں سے اوپر کی جانب گھور کر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کیلے کے درخت پر سب سے اوپر جگنو بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کھیلنے والے بندروں میں سے سب سے چھوٹا بندر تھا۔ وہ کیلے کے درخت کی پھننگ پر سب سے کمزور شاخ پر سہما ہوا بیٹھا تھا۔ جو اس پر لگے ہوئے کیلوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ کیلوں اور جگنو کے بوجھ سے ٹوٹ سکتی ہے۔ جگنو بالکل اکیلا تھا اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ بار بار زمین کی طرف دیکھتا اور ہر دفعہ گہرائی کو دیکھ کر گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتا۔ سلاس نے نہایت حیرانی سے جگنو سے پوچھا "تم اوپر بیٹھے کیا کر رہے ہو۔ تم تو اتنے چھوٹے سے ہو اور تمہیں اتنے بڑے درختوں کی چھتوں تک اتنی اونچائی پر اکیلے نہیں چڑھنا چاہیے۔” جگنو بہت شرمندہ تھا اور سلاس کے ساتھ آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ” دراصل مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور اس درخت پر لگنے والے کیلے پورے افریقہ میں پائے جانے والے کیلوں سے مزے دار ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ سبھی میٹھی نیند سو رہے ہیں تو کیوں نہ میں کچھ کیلے ہی کھا لوں۔ کسی کو پتا بھی نہیں لگے گا۔ مگر….”جگنو نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بات جاری رکھی، کہنے لگا۔ ” میں نے لالچ میں آ کر بہت زیادہ کیلے کھا لئے اور اب میرے پیٹ میں بہت زیادہ درد ہو رہا ہے، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں اس شاخ سے نیچے کیسے اتر سکتا ہوں۔” یہ سن کر سلاس نے سکون سے جگنو کو کہا، ” فکر نہ کرو جگنو! مجھے کچھ سوچنے دو۔” سلاس نے اپنی دُم کے کونے سے اپنا سَر کھجایا اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے کہا، "میں اس شاخ کے گرد اپنی دم لپیٹا ہوں جس پر تم بیٹھے ہوئے ہو۔ اور پھر تقریباً زمین تک لٹک جاتا ہوں۔ جیسے ایک رسی لٹکتی ہے۔ تم مجھے ایک رسی کی طرح پکڑ کر جھولتے ہوئے زمین پر پہنچ جانا۔” جگنو یہ ترکیب سن کر خوش ہو گیا۔

- Advertisement -

سلاس نے حرکت کی اور اپنی دُم کا سرا اس شاخ پر لپیٹ دیا جس پر جگنو بڑی مشکل سے چمٹا ہوا تھا۔ اس نے باقی جسم ایک رسی کی طرح زمین کی طرف لٹکا دیا اور اس کا سَر تقریباً زمین کو چھونے لگا۔ اس نے جگنو سے کہا، "لو اب مجھے پکڑ کر نیچے پھسلتے جاؤ۔” جگنو نے سلاس کی لچکیلی چمکیلی اور پھرتیلی کمر اپنے ننھے گلابی ہاتھوں سے کس کر پکڑ لی اور پھر زوں کی آواز سے پھسلتا ہوا نیچے آگیا۔ اس کے قدم زمین پر ٹکے تو دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ نیند میں‌ تھی۔ ماں نے اسے دیکھا تو سخت ناراضی سے پوچھا، ” تم کہاں غائب تھے؟ اور میں نے تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ اکیلے درختوں پر نہ چڑھا کرو ورنہ سلاس تمہیں پکڑ گا۔” جگنو نے ماں کی یہ بات سن کر اسے پورا واقعہ سنایا۔ جگنو بولا، "امی آپ صحیح کہہ رہی ہیں، سلاس نے ہی مجھے ڈھونڈا ہے اور اس نے میری مدد کی ہے، اور مجھے ایک اونچے درخت سے نیچے اتارا ہے۔” ادھر سلاس ابھی اپنے جسم کے بل اس درخت سے کھولنے میں مصروف تھا جس پر جگنو پھنسا ہوا تھا کہ اس کی نظر جگنو کی ماں پر پڑی جو وہاں اس کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ وہ سلاس کے پاس آئی اور کہنے لگی، "مجھے بہت افسوس ہے کہ میں تم پر شک کرتی رہی اور تمہیں برا بھلا کہتی رہی۔ لیکن اب مہربانی فرما کر میرے گھر آؤ، میں تمہیں ناریل کا دودھ پینے کو دوں گی۔ اور آج کے بعد تم ہمارے دوست ہو۔”

سلاس یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اب اس کی تنہائی دور ہوچکی تھی۔ اس واقعے کے بعد سلاس نے بندر کے بچوں کو جھولا جھلانا اپنا معمول بنا لیا۔ وہ درخت کی شاخوں سے اپنی دُم لپیٹ کر لٹک جاتا اور بندر کے بچے اس کی چکنی اور ملائم جلد پر پھسلتے ہوئے زمین پر آتے اور خوب ہنستے۔ سلاس کچھ ہی عرصہ میں یہ بات بھول چکا تھا کہ کبھی وہ ہر وقت تنہائی کا شکوہ کرتا تھا اور افسردہ رہتا تھا۔

(افریقی ادب سے ترجمہ شدہ کہانی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں