19.6 C
Dublin
پیر, مئی 20, 2024
اشتہار

سلطان احمد سنجر: اسلامی دنیا کے ایک بلند رتبہ حکم راں کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

سلطان احمد سنجر اسلامی دنیا کی تاریخ میں ایک قابلِ ذکر حکم راں اور بلند رتبہ شخصیت ہیں جنھیں ’’سلطانِ اعظم‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد سلطان احمد سنجر ہی نے آخری مرتبہ مسلمان ریاستوں‌ کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا تھا۔

مؤرخین کے مطابق سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت بھی ضربُ المثل تھی۔ ان کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور دولتِ عباسیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو اسی جھنڈے تلے جمع ہونے کا موقع میّسر آیا تھا۔ مؤرخین کے نزدیک یہ سلجوق حکم راں کا وہ کارنامہ ہے جس نے دیگر مسلمان حکم رانوں کے درمیان انھیں ممتاز کیا اور عالمِ اسلام میں‌ اُن کی عزّت و توقیر میں‌ اضافہ ہوا۔

سلجوقی سلطنت یا سلاجقۂ عظام دراصل 11 ویں تا 14 ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک مسلم بادشاہت تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان سنجر اسی سلجوق خاندان میں سے چھٹے حکم راں تھے۔ تاہم چشمِ فلک نے سلجوقیوں کا زوال بھی دیکھا اور اس کے ساتھ ہی مسلم ریاستوں میں جو سیاسی ابتری اور مسلمانوں کی صفوں میں جس انتشار کا سلسلہ شروع ہوا، اس نے یورپ کی عیسائی طاقتوں کو ابھرنے اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کیا اور صلیبی جنگوں کے نتیجے میں‌ بیتُ المقدس پر صلیبیوں نے قبضہ کر لیا۔

- Advertisement -

شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے سلطان سنجر کی شان و شوکت کا ذکر اپنی ایک نظم میں‌ کیا ہے۔ سلطان احمد سنجر 8 مئی 1157ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

سلطان سنجر کی لشکر کشی اور فوجی مہّمات کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ تقریباً‌ ہر معرکہ میں فاتح ٹھہرے، اور ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیل گئی تھی۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔

سلطان احمد سنجر کو علّامہ اقبال نے اپنے اشعار میں یوں‌ سراہا ہے:

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقرِ جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان احمد سنجر کا مقبرہ آج بھی موجود ہے اور اب یہ علاقہ ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے اس شہر پر حملہ کیا تھا اور اس دوران سلطان احمد سنجر کے مقبرے کو بھی بڑا نقصان پہنچایا تھا۔

احمد سنجر کا خستہ حال مزار

مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ منگول سپاہیوں نے اسے آگ لگا دی تھی، مگر مقبرے کا بڑا حصّہ محفوظ رہا۔ اس مزار کے طرزِ‌ تعمیر کی ایک انفرادیت اس کے 27 میٹر بلند گنبد کے اوپر تعمیر کردہ وہ بیرونی گنبد تھا جس کی وجہ سے اسے دہرے گنبد والی عمارت کہا جاسکتا ہے۔ اس کے گرد ایک مسجد، کاروان سرائے، بازار اور دیگر مقابر کے آثار بھی ملے ہیں اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قدیم دور میں یہ مقام آباد تھا اور یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد مزار پر بھی فاتحہ خوانی کے لیے آتی ہوگی۔

مرمت اور تزئین و آرائش کے بعد مزار کا بیرونی منظر

سلجوق خاندان کے اس چھٹے سلطان کا نام اور ان کے کنیت و القاب ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اوّل، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق درج ہیں۔ سلطان کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشین ہوا، لیکن مؤرخین کے مطابق سلطان احمد سنجر کے ساتھ ہی سلاجقہ کی حکومت نے بھی دَم توڑ دیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں