بدھ, جنوری 15, 2025
اشتہار

پروفیسر احمد علی:‌ اردو اور انگریزی زبان کے معروف ادیب اور نقّاد

اشتہار

حیرت انگیز

اردو میں ترقی پسند ادب کی داغ بیل ڈالنے میں بنیادی اور اہمیت کا حامل ایک نام پروفیسر احمد علی کا ہے۔ وہ اردو اور انگریزی زبان کے معروف ادیب، نقّاد اور دانش وَر تھے جنھوں نے دونوں زبانوں میں اہم موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں۔

ادبی محاذ پر پروفیسر صاحب اپنے نظریات کے ساتھ تنقیدی مضامین، ناول اور افسانہ نگاری کے علاوہ ترجمہ کرنے کے حوالے سے پہچانے گئے۔ 14 جنوری 1994ء کو کراچی میں وفات پانے والے پروفیسر احمد علی کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 1910ء میں پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرتے ہوئے ادب کا مطالعہ جاری رکھا اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ بعد میں‌ اپنی تنقیدی بصیرت کا اظہار مضامین میں کیا۔ پروفیسر احمد علی نے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا ایک افسانہ، اردو افسانوں کے مشہور اور متنازع مجموعے انگارے میں بھی شامل تھا۔ اس مجموعے میں یوں تو احمد علی کے علاوہ سجاد ظہیر، رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانے بھی شامل تھے لیکن مذہبی اور اخلاقی ضابطوں کے حوالے سے اعتراضات اور تنقید سب سے زیادہ پروفیسر احمد علی اور سجاد ظہیر کے افسانوں ہی پر ہوئی اور یہ وہ افسانے تھے جن میں مصنفین کی جرأت اور بے باکی کی جھلک واضح تھی۔ ان افسانوں نے اس وقت سماج کو چونکانے سے زیادہ جھنجھوڑنے کا کام کیا اور یہی بات خاص فکر کے حامل لوگوں کو قبول نہ تھی۔ ’’انگارے‘‘ کے خلاف رد عمل اتنا شدید تھا کہ حکومت نے قانون کی آڑ لے کر اس کتاب کو ضبط کر لیا اور اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی۔

اردو دنیا کے ممتاز شاعر، ادیب اور جیّد صحافی چراغ حسن حسرت بھی پروفیسر احمد علی کے بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ ان قد آور شخصیات کی نوک جھونک اور آپس میں ہنسی مذاق بھی بڑا لطف دیتی ہے۔ پروفیسر صاحب کی شکل و صورت پر حسرت نے ایک موقع کی مناسبت سے بڑی دل چسپ بات کی تھی جسے اردو کے نام وَر مزاح گو شاعر ضمیر جعفری نے رقم کیا ہے۔ آج پروفیسر احمد علی کی برسی پر یہ قصّہ مرحوم کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

- Advertisement -

"مرشد (ضمیر جعفری چراغ حسن حسرت کو مرشد کہتے تھے) کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔ لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سو کر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔ فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

ضمیر جعفری لکھتے ہیں، پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔ بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگا پور پر چھوڑ رکھا تھا۔

پروفیسر احمد علی نے قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کی تصانیف میں ہماری گلی، شعلے اور قید خانہ کے علاوہ انگریزی زبان میں لکھی گئیںMuslim China ، Ocean of Night ،The Golden Tradition ،Twilight in Delhi اور Of Rats and Diplomats شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب نے انگریزی زبان میں ناول کے علاوہ کئی موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔

معروف ادیب اور نقاد پروفیسر احمد علی کو ستارۂ قائداعظم عطا کیا گیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں