تازہ ترین

احمد رشدی: آواز اور انداز کا ساحر

احمد رشدی کی آواز میں کئی فلمی گیت نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ اسٹیج پر گلوکاری کے دوران پرفارمنس نے بھی احمد رشدی کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ انھوں نے سولو، ڈسکو، پاپ میوزک، کلاسیکل میوزک، ہپ ہاپ میوزک جیسی تمام اصناف میں اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور خوب شہرت سمیٹی۔ آج پاکستان کے اس منفرد گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

احمد رشدی نے موسیقی کی کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی گانے پر جذباتی انداز میں ایسے پرفارم کرتے تھے کہ دیکھنے والا ان کا دیوانہ ہوجاتا۔

پاکستان کے اس مشہور گلوکار نے کئی زبانوں میں گانے گائے جن میں گجراتی، مراٹھی، تامل، تلگو، بھوجپوری شامل ہیں لیکن اردو زبان میں‌ ان کی آواز میں شوخ نغمات زیادہ مشہور ہوئے۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر رشدی کی آواز میں تقریباً 150 گانے گائے فلمائے گئے اور سبھی مقبول ہوئے۔

11 اپریل 1983ء کو احمد رشدی ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ احمد رشدی کی آواز میں یہ سدا بہار گیت بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی….آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ اسی طرح کوکو رینا اور آیا گول گپّے والا آیا وہ نغمات تھے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

احمد رشدی نے 1935ء میں ہندوستان کی مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے فلم عبرت سے پسِ پردہ گائیکی کا آغاز کیا اور 1954ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے جہاں ان کی گائیکی کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع ہوا۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے بندر روڈ سے کیماڑی جیسے مقبول نغمے سے یہاں اپنی پہچان کا سفر طے کرنا شروع کیا تھا۔ اس دور میں‌ ریڈیو تفریح اور معلومات کا ایک مقبول اور عام ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ انھیں‌ جلد ہی ملک کے طول و عرض میں‌ پہچان مل گئی۔

پاکستان میں احمد رشدی کی بطور پسِ پردہ گلوکار پہلی فلم کارنامہ تھی۔ تاہم اس کی ریلیز سے پہلے فلم انوکھی ریلیز ہوگئی جس کے لیے انہی کی آواز میں گیت ریکارڈ کیے گئے تھے۔ اس فلم کے گیت کو سبھی نے بہت پسند کیا۔ اس فلم کے بعد احمد رشدی کی کام یابیوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وہ فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں‌ شامل ہوگئے۔ سرحد پار بھی احمد رشدی کے گائے ہوئے گیتوں کو سراہا گیا اور پاکستان میں ان کا شمار فلمی صنعت کے ورسٹائل اور مقبول ترین گلوکاروں میں ہوا۔ احمد رشدی کی خاص بات ان کے شوخ اور رومانوی نغمات پر دیوانہ وار پرفارمنس تھی۔ اس کے علاوہ المیہ اور طربیہ شاعری کو بھی احمد رشدی نے اپنی آواز میں اس طرح سمویا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔ یہ پاکستانی گلوکار دھیمے سُروں کے ساتھ چنچل اور شوخ موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے لیے مشہور تھے۔ احمد رشدی کو ان کی گائیکی پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا اور بعد از مرگ حکومتِ پاکستان نے بھی احمد رشدی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

Comments

- Advertisement -