اتوار, فروری 23, 2025
اشتہار

بے ادب اور منہ پھٹ آدمی!

اشتہار

حیرت انگیز

اردو زبان کے نام ور اہلِ قلم اور مشہور شخصیات کی آپ بیتیوں یا خود نوشت سوانح عمریوں‌ کا مطالعہ ہمیں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا بھی موقع دیتا ہے۔ ان شخصیات کی زندگی کے مختلف ادوار، ان کے کام اور کارناموں کے علاوہ کئی ایسے واقعات بھی ان آپ بیتیوں‌ میں پڑھنے کو ملتے ہیں جو ہماری توجہ اور دل چسپی کا باعث بنتے ہیں‌۔

احسان دانش کو شاعرِ مزدو کہا جاتا ہے۔ وہ مشہور شاعر ہی نہیں‌، زبان و بیان کے ماہر بھی تھے۔ انھوں‌ نے ساری زندگی مشکل حالات سے لڑتے ہوئے گزاری۔ انھوں نے مڈل تک تعلیم حاصل کی اور مزدوری کرنے نکل گئے۔ چھوٹے موٹے کئی کام کیے، کہیں چپڑاسی لگے، کبھی مالی بنے اور کہیں وزن ڈھو کر روزی روٹی کا انتظام کیا۔ احسان دانش نے اردو شاعری میں‌ بہت نام و مرتبہ پایا۔ ان کی آپ بیتی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی جس میں‌ انھوں نے شاعرِ‌ مشرق سے اپنی پہلی ملاقات کا حال رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

مولانا تاج وَر نجیب آبادی، علامہ اقبال کے مداحوں میں سے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ”پنجاب کی سرزمین نے یہ بہت تناور انسان پیدا کیا ہے، لیکن یہاں کے عوام کے دماغ ابھی اونگھ رہے ہیں۔“

ایک دن میں نے عرض کیا، ”مولانا زندگی میں جس قدر اقبال کی شہرت ہے یہاں اور کس کو یہ رتبہ ملا ہے؟“

مولانا تنک مزاج تو تھے ہی، بگڑ گئے جیسے ان کی خاموشی کے پھوڑے کو چھیڑ دیا ہو۔ بولے، ”ابے الّو! تجھے کیا خبر کہ علامہ اقبال کس مقام کے انسان ہیں، یہاں ایسی شخصیتوں کے جوہر تو مرنے کے بعد کھلا کرتے ہیں، کیوں کہ مردہ قومیں مردوں کو پوجتی ہیں اور زندہ قومیں زندہ لوگوں کے جوہر کو سراہتی ہیں۔“

میں نے مولانا سے کئی بار کہا، ”مولانا! مجھے علامہ اقبال کو دکھا دیں، آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔“ مولانا نے کہا ”ہرگز نہیں، میں تجھے اپنے ساتھ ہرگز نہیں لے جا سکتا کسی اور کے ساتھ بھیج دوں گا، دیکھ آنا۔“

میں نے کہا، ”مولانا میں تو آپ ہی کے ساتھ جاؤں گا آپ سے زیادہ یہاں میرا ہم درد کون ہو سکتا ہے؟“

مولانا بولے، ”تُو بڑا بے ادب اور منہ پھٹ آدمی ہے، تجھے ساتھ لے جا کر میں کیا اپنی توہین کراؤں؟“

میں نے نہایت لجاجت سے کہا، ”مولانا! میں وعدہ کرتا ہوں، جب تک وہاں سے واپس آئیں گے اس وقت تک میں ہونٹ سیے رکھوں گا، ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالوں گا۔“ مولانا سن کر خاموش ہوگئے۔

ایک دن مولانا نے مجھے گھر سے بلوایا اور کہا، ”ذرا کپڑے ڈھنگ کے پہن آ…“ میں نے پوچھا ”کیا گورنر صاحب کے یہاں جانا ہے؟“

مولانا: ”ابے جاہل! علامہ اقبال کے یہاں جانا ہے، جس کے لیے تو روز میرے سر رہتا ہے۔“

میں: ”مولانا انہیں میرے کپڑوں سے کیا غرض، وہ تو آپ کو دیکھیں گے۔ آپ اپنے مقام کا لباس پہن لیں، میں تو آپ کے خادم کی حیثیت سے آپ کے ساتھ جاؤں گا اور میرے پاس کپڑے ہیں بھی کہاں۔ دو جوڑے ابھی دھو کر سوکھنے کے لیے ڈال کے آیا ہوں، وہ بھی کئی جگہ سے گونتھ رکھے ہیں۔“

مولانا: ”اچھا چل یوں ہی چل، لیکن جب تک وہاں رہے زبان سی لینا۔“

میں: ”جیسا حکم ہو، میری کیا مجال ہے کہ سرتابی کروں۔“ اس کے باوجود مولانا تمام راستے مجھے تلقین کرتے گئے کہ ”وہاں زبان کھولنا گستاخی ہے، گستاخی۔“

جب مولانا، علامہ کی کوٹھی کے دروازے پر پہنچے تو پھر مجھے خاموش رہنے کی تاکید کی اور میں تیوری پر بل ڈال کر خاموش ہوگیا۔

مولانا نے جھلا کے کہا ”کچھ منہ سے تو پھوٹ، سن رہا ہے کہ نہیں؟“

میں: ”آپ ہی نے تو کہا ہے کہ خاموش رہنا۔ میں تو بڑی دیر سے خاموشی پر عمل پیرا ہوں۔“
مولانا مسکراتے ہوئے علامہ کے یہاں ایک نیم روشن کمرے میں پہنچ گئے۔ مولانا تاج وَر اور علامہ تو باتیں کرتے رہے اور میں ان دونوں بزرگوں کو ایک پجاری کی طرح دیکھتا رہا۔ جب چلنے لگے تو علامہ نے مولانا سے میرے متعلق دریافت کیا۔ مولانا نے فرمایا، ”غریب مزدور آدمی ہے، نجانے شعر و شاعری کا روگ کہاں سے لگا لیا اور میرے یہاں آنے جانے لگا، عرصے سے آپ کو دیکھنے کا متمنی تھا۔“ علامہ نے میرا نام دریافت کیا میں نے شرماتے ہوئے لہجے میں کہا، ”احسان…“

علامہ نے فرمایا ”نام تو مزدوروں والا نہیں، اچھا! خدا اسمِ بامسمیٰ کرے۔“

مولانا جب سڑک پر آئے تو کہنے لگے، ”احسان، تو نے بڑے آدمی کو دیکھا ہے۔“

میں نے عرض کیا، ”حضور! میں بلاشبہ آپ کا ممنون ہوں۔“

مولانا: ”میں نے تجھے اسی لیے خاموش رہنے کو کہا تھا کہ تُو بات نہ کرنا جانتا ہے نہ سننا، بھلا مجھے تیری ممنونیت سے کیا فائدہ؟“

میں نے کہا، ”مولانا شکریہ کوئی جرم تو نہیں۔“

مولانا نے کہا، ”چپکا چپکا چل بات نہ بڑھا، میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ تو خوش نصیب ہے کہ علامہ سے مل بھی لیا اور دعا بھی لے لی۔“

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں