تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

جندر: تنہائی، انتظار اور موت کا ناول

پہلے ہی ورق پر موت سے آپ کا سامنا ہوتا ہے۔ کہانی آپ کو دبوچ لیتی ہے، اور  پھر آپ آخر تک جاتے ہیں۔

”جندر“ اختر رضا سلیمی کی کاوش ہے، جن کا چرچا پہلے پہل اُن کی شاعری کے سبب ہوا، دوسری بار ان کے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کے سبب، اور تیسری بار”جندر “کے سبب۔

پہلے ہی ورق پر ناول کے مرکزی کردار ولی خان کو  سانحے سے 45 دن قبل، یہ ادراک ہوچکا ہے کہ وہ جلدموت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اگر یہ صفحہ پڑھ لیا، تو  سمجھیں ناول نگار نے آپ کو  اس ڈور میں باندھ لیا، جس میں مختلف گانٹھوں سے، چھوٹی بڑی گانٹھوں سے یادیں محفوظ کر لی گئی ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ گانٹھیں کھلتی جاتی ہیں، یادیں مناظر کی شکل اختیار کرتی جاتی ہیں۔ 

مرکزی کردار کا ماضی، ماں کی موت، باپ کا جہان فانی سے کوچ کرنا، شادی، بچے اور رشتوں میں ابھرنے والی دراڑ؛ یہ ڈور میں لگائی جانے والی چھوٹی چھوٹی گانٹھیں ہی تو ہیں۔ یہی گانٹھیں ہمیں ناول کے دوسرے اہم ترین کردار سے روشناس کرواتی ہیں، جو جندر ہے، جس کی کوک کا پہلا کردار دیوانہ ہے۔

اس دوران حقیقی  پہلوﺅں کے ساتھ ساتھ زندگی کے پراسرار  پہلوﺅں سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جو ہمارے تجسس کو مہمیز کرتے ہیں۔

آئیں،اس ناول کے چند پہلوﺅں پر بات کرتے ہیں۔

کچھ تذکرہ موضوع اور پلاٹ کا

گو ناول مختصر ہے، مگر کامیابی سے ایک جندروئی کی زندگی کے ماضی، حال اور متوقع مستقبل کو منظر کرتا ہے۔ مستقبل، جو اس کی موت ہے۔

زمانی لحاظ سے خوب پھیلا ہوا یہ ناول مکانی لحاظ سے ایک ہی جگہ، ایک گاﺅں، بلکہ ایک جندر تک سمٹا ہے، جو اِس کا حسن بھی ہے، اور  اسے  محددو بھی کرتا ہے۔

یوں تو یہ کئی چھوٹے بڑے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے، مگر اصل موضوع ہے تنہائی، جو شروع سے آخر تک پھیلا ہوا ہے، جسے خوبی سے نبھایا گیا۔

ناول میں واقعات کی ترتیب مکمل طور پر یادداشت سے نتھی ہے۔ پلاٹ میں ان واقعات کی ترتیب کا مناسب اہتمام کیا گیا ہے۔

کردار کی کہانی

یہ ناول دو کرداروں کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ایک تو وہ شخص ہے، جوبراہ راست قاری سے کلام کرتا ہے ، جس کا نام ولی خان ہے، اور جو مرنے والا ہے۔

اور دوسرا کردار جندر ہے، جہاں آخر چونگ پیسی جاچکی ہے کہ اب گاﺅں والے اِدھر نہیں آتے کہ گاﺅں میں مشینی جندر لگ گئے ہیں۔ تو اب صرف خاموشی ہے۔ بس بہتے پانی کا شور اور  جندر کی اداس کوک ہے۔

اصل کردار تویہی دو ہیں۔ ہاں، ایک مضبوط کردار اور ہے۔ جندروئی کی بیوی حاجرہ ۔ ایک سخت جان کردار، جس کے احساسات انتہائی نوعیت کے ہیں۔ ولی خان کی زندگی میں جو ہل چل ہوتی ہے، اور پھر جو خاموشی در آتی ہے، وہ اِسی کردار کے وسیلے آتی ہے۔

ایک کردار بابا جمال الدین بھی ہے، ایک قصہ گو۔ جو نمایندگی کرتا ہے قصہ گوئی کے قدیم فن کی، جو اب قصہ پارینہ ہوا۔

احساس، جو منظر کیا گیا

”جندر“ احساسات کا ناول ہے۔ پہلا احساس تو  ہے تنہائی کا احساس۔ اور  یہ احساس منفی نہیں، کم از کم مرکزی کردار کے لیے نہیں۔ اس کے لیے یہ زندگی کا حسن ہے کہ اس کی نال جندر میں گڑی ہے، اور اُس کی کوک کے بنا وہ سونے سے  قاصر ہے۔

اُسے اکیلے پن سے جنم لیتی محبت کے احساس کو  بھی ناول نگار نے خوبی سے منظر کیا ہے۔ ایک غیرفطری محبت کو۔ ایک جیوت انسان اور  ایک بے جان جندر کی محبت کو۔ اور یہی محبت اُسے معمول کی زندگی کے سمت جانے سے روکتی ہے۔

مرکزی کردار کے احساسات کو الفاظ میں ڈھالنا ناول نگار کی بڑی کامیابی ہے،  جو موت کے ساتھ ساتھ اُس شخص کا بھی انتظار کر رہا ہے، جو سب سے پہلے اس کی لاش دریافت کرے گا۔

اور کہیں کہیں اس طویل، خاموش انتظار میں ایک ڈوبتی ہوئی امید بھی ہے۔

ناول نگار کا اسلوب

جن الفاظ نے اردو فکشن کے قارئین کو ستایا، ان میں سے ایک تو” بیانیہ“ ہے، اور  دوسرا” اسلوب“ ہے۔ اِدھر اس تحریر میں اسلوب سے مراد وہ طرز بیان یا تکنیک ہے، جو فکشن نگار اختیار کرتا ہے۔ اور زبان بھی اس طرز بیان کی تخلیق کا جزو ہے۔

زبان ، جو اختر رضا سلیمی نے برتی، وہ فکشن نگاری کے لیے موزوں ہے کہ وہ بڑی حد تک اُس زمان و مکان سے جڑی ہوئی ہے، جسے ناول میں منظر کیا گیا۔گو اس میں نامانوس الفاظ نہیں، تخلیقی پیچیدگی نہیں، البتہ یہ زبان اتنی بھی سہل نہیں کہ بس قاری سہولت سے پڑھتا چلا جائے۔ سیدھے سبھاؤ کے جملے کی افادیت سے انکار نہیں، مگر اسے لکھنے پر اصرار ہماری فکشن نگاری کو آگے بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔

اختر رضا سلیمی کے ہاں رموز و اوقاف کے نپے تلے استعمال کے ساتھ ایک زرخیز جملے لکھنے کی للک نظر آتی ہے۔

ایک ہی مقام سے شروع ہونے والی کہانی، مکانی اعتبار سے وہیں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ایسے میں کہانی فلیش بیک تکنیک ہی کے ذریعے آگے بڑھ سکتی ہے۔ اگر ناول طویل ہو، تو دہرانے جانے کے عمل کے باعث یہ تکنیک اکتاہٹ پیدا کرسکتی ہے،البتہ ادھر  ایسا معاملہ نہیں ۔

حرف آخر

ناول ایک پرپیچ فن، اور  اس کا تجزیہ، اس پر تبصرہ وقت طلب کام، البتہ اس مختصر تحریرکے اختتام پر  یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ اختر رضا سلیمی کے قلم کے وسیلے ایک قابل مطالعہ بیانیہ ہم تک پہنچا، جو طویل خاموشی اور تنہائی میں جنم لینے والے احساسات تک لے جاتا ہے، اور انتظار کی کائنات میں اس اسرار کی بھی جھلک دکھاتا ہے، جس کے ہم گرویدہ ہیں۔

یہ ناول جدید ، تیز رفتار، پرشور دنیا سے دور لے جاتا ہے۔ کسی ندی کے کنارے، جہاں ناول نگار خاموشی، تنہائی اور ایک قدیم جندر کی کوک سے ایک فن پارہ بناتا ہے۔ اِس فن پارے میں کہیں کہیں جدید رنگوں کے بھی اسٹروک ہیں، جوبیانیہ کا حصہ تو ضرور  ہیں، مگرکہیں کہیں اتنے جانے پہنچانے نہیں لگتے۔ جندروئی (ولی خان) کی مطالعے میں دل چسپی، بوڑھے قصہ گو(بابا جمال الدین) کو ناولز سنانا۔ ” آگ کا دریا “اور” اداس نسلیں “کا تذکرہ  ہمیں اضافی نہ بھی لگے، تب بھی اتنا قدیم بہ ہرحال نہیں، جتنے قدیم زمانے میں یہ ناول خاموشی سے ہمیں لے جاتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ ایک قابل مطالعہ ناول ہے، جو اختر رضا سلیمی کی فکشن نگاری سے جڑی امیدوں کو مہمیز کرتا ہے، اور ہم میں ان کے تیسرے ناول کے انتظار کی للک بڑھاتا ہے۔

اور کیا یہ یہ فکشن نگار کی کامیابی نہیں؟

Comments

- Advertisement -