تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

اسلام آباد :اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت منظور کرلی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا 8 ہفتے کیلئے معطل کردی اور 20لاکھ روپے مچلکے جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق ،جسٹس محسن اخترکیانی پرمشتمل ڈویژن بینچ العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت اور سزا معطلی پر سماعت کررہا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، نوازشریف کےوکیل ہائی کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ نیب وکیل، میڈیکل بورڈ کے ڈاکٹرز بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

دوران سماعت وکیل حکومت پنجاب نے عدالت کو بتایا وزیراعلیٰ کو بلانے پر آئینی،قانونی پیچیدگیاں تھیں، اس کے باوجود بھی وزیراعلیٰ پنجاب پیش ہوئے، وزیراعلیٰ پنجاب عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے کہا میں خود بھی وکیل ہوں، ایک سال میں 8 جیلوں کے دورےکئے، 8ہزار قیدیوں کو فائدہ پہنچاہے، نواز شریف کا علاج جاری ہے، جس پر جسٹس عامرفاروق نے کہا کیس سے متعلق آگاہ کریں، جیل میں قیدیوں کیلئےکیااقدامات ہیں، قانون میں ہے،مریض قیدی کا خیال  رکھاجاناچاہیئے، کچھ چیزیں ہیں جوتوجہ طلب ہیں۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تودرخواست دائر کر دی ، بہت سے بیمار قیدی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے، کوئی کینسر اور کوئی دوسری کسی مہلک بیماری سے، تمام قیدیوں کے لئے راہ دکھانا چاہتے ہیں۔

عثمان بزدار نے کہا میں جہاں جاتا ہوں جیلوں کا وزٹ کرتا ہوں، میں پہلا وزیراعلیٰ ہوں جس نے 8 جیلوں کا دورہ کیا، مریض قیدیوں سے متعلق بھی بھرپور توجہ ہے، ہم جیل ریفارمز کی پوری کوشش کر رہے ہیں، یہ کیس ہم سےمتعلقہ نہیں ہے، نواز شریف صرف ہماری حراست میں ہیں اور ان کا خیال رکھنے کیلئے  بھرپور اقدامات کئے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم پیکج لا رہے ہیں جس میں چیزیں دنوں میں گراؤنڈ پر آئیں گی، جس پر عدالت نے استفسار کیا خواجہ صاحب آپ اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں، عثمان بزدار نے مزید کہا کہ جیل کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہی، میں پہلا وزیر اعلیٰ ہوں جو جیل میں جا رہاہوں تو جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جیلوں میں نہیں بلکہ جیلوں کا وزٹ کرنےجارہےہیں۔

جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کو جانے کی اجازت دے دی۔

سماعت میں نواز شریف کے میڈیکل بورڈ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی ، ڈاکٹرزکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نواز شریف کو دل اورگردوں کا عارضہ ہے اور ان  کو پلیٹ لیٹس کا مسئلہ ہے، ہماری کوشش ہے نواز شریف کی بیماریوں کا علاج کریں۔

عدالت نےایڈووکیٹ جنرل طارق محمودکو روسٹرم پر طلب کر لیا، ڈاکٹرز نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نےنواز شریف کےبون میروٹیسٹ کی سفارش کی، نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، وہ متعددبیماریوں کے شکار ہیں۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا یعنی ایک چیز کا علاج کیا جائے تو دوسرا مسئلہ ہوجاتاہے، دوسرے کا علاج کیاجائےتوپہلےکا مسئلہ ہو جاتا ہے ، کیا اس طرح کہا جا سکتا ہے، میڈیکل ٹیم نے بتایا جی ایسا ہی ہے ایک کا علاج کیا جائے تو دوسرا ایشوہوجاتا ہے۔

نواز شریف کےذاتی معالج ڈاکٹر عدنان عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ نواز شریف کی حالت بہت تشویشناک ہے، پلیٹ لٹس بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگربڑھ نہیں رہے، نواز شریف کو ہارٹ اٹیک بھی ہو چکا ہے، ان کی جان کو ابھی تک شدیدخطرہ ہے۔

ڈاکٹر عدنان نے بتایا کہ ابھی تک معلوم نہیں پلیٹ لٹس کیوں کم ہوئے، جب تک بیماری کا پتہ نہ چل جائے علاج نہیں ہو سکتا، ہومیوگلوبن سے نواز شریف  کا  بلڈپریشر ،شوگربڑھ گیا، 20 سال سے نواز شریف کا ڈاکٹر ہوں ، مگر ان کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں ہوئی، نواز شریف زندگی کی جنگ لڑ رہے  ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے نواز شریف کےذاتی معالج کو بیٹھنے کا کہا، وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو انجائنہ کی تکلیف ہے، جس پر ایم ایس سروسز اسپتال نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے پلیٹ لٹس دوبارہ 30ہزارکرناپڑے، ڈاکٹرز پوری کوشش کر رہے ہیں کہ طبیعت بہتر ہو۔

ڈاکٹر عدنان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو جان بچانے کی ادویات دی گئیں، بورڈ نے کل فیصلہ کیا ہے پورے جسم کااسکین کیا جائے، کسی بھی وقت خون بہنے کا خطرہ موجود ہے۔

خواجہ حارث نے کہا پلیٹ لیٹس بڑھانے کے دوران ہارٹ اٹیک ہوا، اسٹیرائڈزلگانے سےہارٹ اٹیک کے چانس بڑھ جاتے ہیں، مریض کو 24اور 25 کی رات مائنر ہارٹ  اٹیک ہوا، اس وقت مریض کی حالت بہت خراب ہے، نواز شریف کا دل پمپ نہیں کر رہا اور ان کے گردے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کوعلاج سے فرق نہیں پڑرہا، سروسزاسپتال میں نواز شریف کی بیماریوں کےٹیسٹ دستیاب نہیں، ان کی زندگی کو خطرہ ہے، 26 اکتوبر کی رپورٹ میں کہا گیا مریض کا دل پمپ نہیں کررہا، دل پمپ نہ ہونےکی وجہ سے گردوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے، نواز شریف کو علاج اور رحم کی ضرورت  ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا علاج کرانا اور سہولت بنیادی حقوق میں شامل ہے، ہم نواز شریف کی علاج سے مطمئن نہیں ہیں، ان کی میڈیکل رپورٹس نے سب کچھ بتادیا، سروسز اسپتال میں کارڈیک مشین ہی نہیں ہے اور گردوں کے چیک اپ کیلئے دوسرے اسپتال جانا پڑتاہے۔

میڈیکل بورڈ تو خود کچھ نہیں کر پا رہا، جب کوئی نتیجہ نہیں نکل رہاتومطلب غیرتسلی بخش علاج ہورہا ہے ، سروسز اسپتال میں کارڈیک یونٹ نہیں ہے، سروسز  اسپتال میں سب علاج ایک چھت تلے نہیں، جب ایک بندہ رہے گا ہی نہیں تو سزا کس کو دیں گے۔

جسٹس محسن کیانی نے خواجہ حارث سے استفسار کیا ابھی تک کے علاج سےمطمئن ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم نواز شریف کےعلاج سے  مطمئن نہیں ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہےپھانسی کامجرم بھی بیمار ہوتوعلاج کرایاجائے، یہ ہارڈ شپ کا کیس ہےہی نہیں۔

وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کو مصنوعی طورپربڑھایا جا رہا ہے، یہ صورتحال میں نواز شریف کی جان کیلئےخطرہ ہے، ان کی  حالت بدستور خراب سےخراب ہوتی جارہی ہے، جان اللہ کے ہاتھ میں ہے مگرعلاج کرانا ضروری ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ تو خواجہ حارث کا کہنا تھا ریاست کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، زندگی بچانےکی ادویات دیتے ہیں تو اس کے بھی مضراثرات ہوتے ہیں۔

جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ضمانت دیں اور وہ ایک ماہ میں صحت مندہوجائیں توکیاہوگا، جس پر خواجہ حارث نے کہا اس صورت میں ضمانت منسوخی کی درخواست دائرکی جا سکتی ہے، جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ فیصلہ ایک اتھارٹی نے کرنا ہے، عدالت یا حکومت دونوں میں سے ایک نے فیصلہ کرنا ہے، تو خواجہ حارث کا کہنا تھا نوازشریف کاعلاج ایسے اسپتال سے کرانا ہے جہاں تمام ٹیسٹ ہو سکیں۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر وہ کبھی سزا کاٹنے کے قابل ہوگئے تو پھر کیاہوگا، کیا پھر سزا  کو ایسےہی چھوڑ دیا جائے گا، آرٹیکل 401کے تحت ایگزیکٹو خود ایسے کام کیوں نہیں کرتا، کیا اس میں کوئی رکاوٹ ہے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ روسٹرم پر آئے اور دلائل میں کہا سپریم کورٹ نےعلاج کیلئے6ہفتےسزامعطل کی تھی اور سزامعطلی پر کچھ  پیرامیٹرزطےکئےتھے، جس پر جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس بیمار قیدی کیلئے اختیارات موجود ہیں تو جہانزیب بھروانا نے بتایا
قیدیوں  کے علاج کے لئے قوانین موجودہیں۔

جہانزیب بھروانہ نے طبی بنیادپرضمانت کاسپریم کورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا ہم طبی معاملات کے ماہر نہیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا عدالت کو ایک چیز بتائیں، کوٹ لکھپت اور اڈیالہ جیل پنجاب ہیں، ان دونوں جیلوں کے قیدیوں کافیصلہ کون کرے گا۔

نیب نے نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کردی اور کہا نواز شریف کاعلاج بہترین ڈاکٹرز کررہےہیں، نیب کیس میں سزا پر426 لاگو نہیں ہوتا، جس پر جسٹس  عامرفاروق کا کہنا تھا کہ 401 کے اختیارات پرعملدرآمدکراناوفاق ،صوبائی حکومت کا کام ہے ، تو جہانزیب بھروانہ نے کہا دونوں کے پاس احتیارات  ہیں۔

عدالت نے کہا اسلام آباد میں سزا پانیوالا قیدی جیل جائے تو کسٹڈی کون ریگولیٹ کرےگا؟ اڈیالہ جیل اورکوٹ لکھپت دونوں ہی پنجاب میں ہیں، نیب ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے کہا نواز شریف کےبیرون ملک جانے پر اعتراض ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ انھوں نےملک سےباہرجانےکی توبات ہی نہیں کی، ایک چھت تلے تمام سہولتیں مہیاکرنے کی استدعاہے، جسٹس عامرفاروق نے بھی کہا کہ لاہورنیب کورٹ کسی کوسزا دیتی ہےتوصوبائی کےپاس اختیارجاتاہے، اسلام آبادمیں وفاق کےاپنےجیل نہیں وہ عملدرآمد کیلئے پنجاب جاتی ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کےرول بتائیں، اسلام آباد کے قیدیوں پر ایسی صورت میں فیصلہ کون کرتا ہے؟ جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا صوبائی حکومت ہی اسلام آباد کے قیدیوں پربھی فیصلہ کرتی ہے، اسلام آباد میں جیل نہ ہی جیل قوانین ہیں۔

نیب نے نواز شریف کی ضمانت پر بیرون ملک علاج کی مخالفت کر دی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا اسلام آباد سے سزا ہو تو رہائی کا اختیار وفاق کو یا صوبے کو،اےجی اسلام آبادطارق محمود نے بتایا رہائی کےاختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں، تو جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ جب نوازشریف حراست میں تھےتواس وقت وزیراعلیٰ نے ڈائریکشن دی تھی۔

نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے دلائل میں جیل سپرنٹنڈنٹ کوقیدیوں کےحقوق سےمتعلق اختیارات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے  بتایا ایسانہیں ہوناچاہیےایک ڈاکٹرقیدی کی رپورٹ بنائے، ایسی رپورٹ پرجیل سپرنٹنڈنٹ اس کورہاکردے، عدالت کواس سےالگ نہیں کرناچاہیے۔

جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ قانون کی اپنی منشاہے، ایگزیکٹواپنےاختیارات کااستعمال نہیں کرتی، وکیل خواجہ حارث جواب الجواب دلائل میں کہا کہ میں  صرف نواز شریف کی صحت کیلئے پریشان ہوں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا صرف علاج کیلئےنوازشریف کومحدودمدت کےلئےضمانت دی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ کا ٹائم فریم آپ کے سامنے ہے، جس پر
جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر ہم آپ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں تو ٹائم فریم کیا ہوگا، عدالت کی ہرپہلو پر نظر ہے، وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا عدالت میرٹ  پر فیصلہ دے۔

جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ اپیل زیرسماعت ہے اگر دلائل ہوتے تو اپیل پربھی فیصلہ ہوجاتا، ابھی تک جج بلیک میلنگ کیس پربھی سماعت مکمل نہ ہوسکی، نیب نے نوازشریف کی مستقل ضمانت کی مخالفت کردی۔

جسٹس عامر نے کہا المیہ یہی ہے، جس کو اختیار ملا ہے، وہ استعمال ہی نہیں کرتا، کام کرنے کے لیے دوسرےادارےکاکندھا استعمال کرناروایت بن گئی ہے، جس پر نیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نےعلاج کے لیے محدودمدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار بنایا ، نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت ہے درخواست ضمانت کو التوا میں رکھا جائے۔

نیب کا مزید کہنا تھا کہ چھ ہفتوں تک نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں، عدالت نے نیب سے استفسار کیا ہفتے کو انسانی بنیاد پر ضمانت کی مخالفت نہ کرنے کا بیان دیا۔

خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کو اپنی مرضی سے علاج کرانے کی اجازت دی جائے،آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا ہم آپ کو الزام نہیں دےرہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جب معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو ایگزیکٹو کوئی آرڈرنہیں دے سکتی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا آپ کہہ رہےہیں ایگزیکٹو آرڈر سےفرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا ، تو خواجہ حارث نے کہا العزیزیہ ریفرنس میں سزاکالعدم قرار دینے کی اپیل بھی زیرسماعت ہے۔

خواجہ حارث نےبھارتی سپریم کورٹ کیس کے حوالے کی کاپی عدالت کو دی اور کہا عدالت کا صوابدید ہے کہ وہ نوازشریف کوضمانت پررہا کرے، جسٹس عامر  فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کےپاس آرٹیکل 199کےتحت اختیارات توہیں لیکن آرٹیکل401کوبھی دیکھنا ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کیا اپیل کےفیصلےسےپہلےصدر مملکت سزا معاف کرسکتےہیں؟ خواجہ حارث نے کہا صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں، روایت یہ ہےکہ پہلے تمام فورمز پراپیل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

جسٹس محسن کیانی نے کہا نیب کے سوا ابھی تک وفاق،صوبائی حکومت کامؤقف واضح نہیں، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے اس وقت 4آپشنز ہیں، معاملہ ایگزیکٹوکوبھیجیں، نیب تجویز پرٹائم فریم کیلئےسزا معطل کریں، آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کر دیں، شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے ، ڈاکٹرز صرف کوشش ہی کرتے ہیں۔

خواجہ حارث نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوزکو بھجوانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہماری مخالف سیاسی حکومت کو بھجوانا مناسب نہیں ہوگا، جس پر
جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ ہم کسی پرائم منسٹرکےاسٹیٹمنٹ پرنہیں جارہے، کسی نے193نہیں پڑھا تو کسی نے 401 نہیں پڑھا، ہم نے صرف قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے سے پہلے ٹی وی پرسیاسی مخالفین بیان دےرہےہیں، جسٹس محسن اخترکیانی کا کہنا تھا کہ کوئی کچھ بھی بولے ہم نےصرف قانون دیکھناہے، وزیراعظم کے بیان پرنہیں جارہے،فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے۔

جسٹس محسن اختر نے کہا وزیراعظم،وزیراعلیٰ پورےملک،صوبےکےہوتےہیں، کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پریہ بیان دیا؟خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے تو 3دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا، اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لاافسرہیں، سب چینلز نےان کا بیان نشرکیا، عدالت کے پاس آئے ہیں ، آپ قانون کے مطابق فیصلہ کردیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گیی ، ملک میں تاثر بنا دیا گیاہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ  ہو گا، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ادھر ادھر درخواستیں دینے سے لعن طعن ہی ہونا ہے، آپ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، ہم درخواست پر آپ  کے فیصلےکااحترام کریں گے۔

جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث کو مشورہ دیا آپ کو چاہیے متعلقہ فورمز پر جائیں، کچھ نہیں ہوتا تو ہمارے پاس آئیں، خواجہ حارث نے کہا جو اسمبلی میں  ہاتھ نہیں ملاتے، ایسی حکومت سے کیا امید کرتے۔

عدالت نے نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، بعد ازاں نوازشریف کی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر سماعت 25نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو تحریری جواب جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت منظور کرلی اور سزا 8ہفتے کیلئے معطل کرتے ہوئے نوازشریف کو 20 ، 20 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کاحکم دے دیا اور کہا 8ہفتے تک علاج مکمل نہ ہوتو صوبائی حکومت سے رابطہ کریں۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پرمشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔

گزشتہ سماعت پرحکومت کی طرف سے خاطرخواہ جواب نہ ملنے پر وزیراعلیٰ کوطلب کیا گیا تھا ، وزیراعلیٰ طبی بنیادوں پر نوازشریف کی ضمانت سے متعلق  عدالت کی معاونت کریں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ کو بھی ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔

مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کے لیئے نیب نے دو رکنی ٹیم تشکیل دی، چیئرمین نیب کی جانب سے دو ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرلز  کو ذمہ داری سونپ دی گئی ، نیئر رضوی اور جہانزیب بھروانہ عدالت میں چیئرمین نیب کی نمائندگی کریں گے۔

سماعت میں عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،چیئرمین نیب اور رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے نواز شریف کے مقدمات اور صحت کی صورتحال پر تفصیل طلب کی تھی اور کہا تھا بتایا جائے نواز شریف کو جیل اور اسپتال میں کونسی سہولیات میسر کی گئیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں پرچیزیں نہیں ڈالیں، ہم یہ ذمہ داری کسی صورت نہیں لیں گے، میڈیکل بورڈعدالت نے نہیں بنوایا، میڈیکل بورڈ آپ نے بنایا، ذمہ داری لیں اورضمانت کی مخالفت کر لیں، عدالت کوہاں یانہ میں ہی جواب دیں۔

بعد ازاں  نیب نے نوازشریف کی ضمانت پر رضامندی ظاہر کی تھی اور عدالت نے العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے  ہوئے کہا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ جامع رپورٹ دے، حکومت نے آئینی اختیارات استعمال نہیں کیے، حکومتیں ذمہ داری ادا کر رہی ہیں نہ ذمہ داری لے  رہی ہیں۔

خیال رہے لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملزکیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

Comments

- Advertisement -