تاریخ کے کئی واقعات ایسے ہیں جن کے بعد دنیا کی عظیم سلطنتوں کا نقشہ بدل گیا اور کئی تخت الٹ گئے۔ ان واقعات نے یکایک تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ جنگِ عین جالوت انہی میں سے ایک ہے جس میں طاقت اور فتوحات کے نشے میں دھت منگولوں نے رکن الدّین بیبرس کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی اور سقوطِ بغداد کے نتیجے میں انتشار اور مشکلات کا شکار ہونے والے مسلمانوں کو بڑی طاقت اور راحت نصیب ہوئی۔
ستمبر 1260ء میں اسلامی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش دن وہ تھا جب عین جالوت کے مقام پر سرکش اور ظالم منگول حکم راں نے جنگ میں مسلمان سپاہ سالار بیبرس اور اس کے لشکر کے ہاتھوں شکست کھائی۔ یہ عالمِ اسلام کے لیے سقوطِ بغداد کے ڈھائی برس بعد ہونے والا وہ معرکہ تھا جس نے مسلمانوں کو بڑی تقویت اور راحت پہنچائی۔ چین اور روسی سلطنت کے ساتھ دوسرے سرد علاقے اور موجودہ وسط ایشیائی ریاستوں کے علاوہ آدھے سے زیادہ افغانستان اور ایران، سارا عراق اور ترکی و شام کا بڑا رقبہ منگول سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ کچھ مسلمان حکم راں باجگزار تھے اور کچھ اپنی شناخت کھو بیٹھے تھے۔ ایک مصر تھا جہاں حکم رانی مملوکوں کی تھی۔ مصر کا سلطان سیف الدّین قطز اور افواج کا سپہ سالار رکن الدّین بیبرس تھا۔
تقریباً ساری مسلم حکومتوں کو وحشی اور سفاک منگول برباد کر چکے تھے اور پھر ہلاکو خان نے اپنا ایک وفد مصر بھیجا جس نے حاکمِ مصر کو ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا کہا۔ لیکن اسے قطز نے ہلاک کر کے سَر قاہرہ شہر کے دروازے پر لٹکا دیا۔ ہلاکو نے فلسطین کے شہر سیدون پر قبضہ کیا اور وہیں اپنی فوج کو اکٹھا کرلیا۔ مملوک افواج نے بھی مصر سے نکل کر سیدون کا رخ کیا۔ جنگ کا سارا نقشہ رکن الدین بیبرس نے ترتیب دیا۔ یہ ایک حکمتِ عملی پر مشتمل تھا اور دونوں افواج کا آمنا سامنا عین جالوت کے مقام پر ہوا۔ اس معرکۂ عین جالوت میں منگولوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کے کئی مقبوضہ جات ان کو واپس مل گئے۔
جنگِ عین جالوت نے بیبرس کو مسلمانوں کا ہیرو بنا دیا، اور زیادہ تر اس جنگ پر بات کی جاتی ہے، لیکن اس سپاہ سالار کا ایک اور کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا اور صلیبی لشکر کو شکست دینا بھی ہے۔ بیبرس 1277ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ انھیں معرکۂ عین جالوت کے بعد میں مصر و شام کا تخت دیا گیا تھا۔ بیبرس کے حالاتِ زندگی اور کئی واقعات محققین کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں یا ان میں اختلاف ہے، لیکن دست یاب معلومات کے مطابق 1223 میں اس نے خوارزم شاہ کے ایک درباری کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کا نام البند قداری تھا اور وہ رکن الدّین بیبرس مشہور ہوا۔ وقت نے اسے غلام بنا کر مختلف ہاتھوں میں فروخت کے بعد مصر کے بازار تک پہنچایا۔ وہ ایک غلام کے طور پر یہاں ایک نیک خصلت خاتون کے گھر آگیا۔ خاتون نے اپنے مرحوم بیٹے کے نام پر اسے بیبرس پکارنا شروع کردیا اور اپنا بیٹا بنا لیا۔ اسی عورت کا ایک بھائی مصر کے سلطان کے دربار سے منسلک تھا جو غلام بیبرس کو اپنے ساتھ دربار میں لے گیا اور کسی طرح اسے سلطان کی کفالت نصیب ہوگئی۔ وہاں اسے رہائش اور کھانا پینا ہی نہیں بہترین تربیت اور اس زمانے کے رائج ہنر اور حربی علوم بھی سکھائے گئے۔ بیبرس نے اپنی ذہانت اور لگن سے خود کو بہترین سپاہی اور بعد میں فوج کی قیادت کا اہل بھی ثابت کیا۔
مؤرخین کے مطابق وہ مصری افواج کے ان کمان داروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ بعد میں بیبرس مملوک سلطنت کا ایک نام ور حکم ران بنا اور 1260ء سے 1277ء تک مصر اور شام پر حکومت کی۔ وہ نسلاً ایک قپچاق ترک تھا جسے غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا تھا۔
عین جالوت کی جنگ میں تاتاریوں کی شکست کی خبر شام اور فلسطین اور دنیا بھر میں منگول مقبوضات میں پھیل گئی جس نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور وہ منگول حاکموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور تاتاریوں کا مقابلہ کر کے اپنے شہر واپس لینے شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام اور فلسطین کے اکثر مقبوضات منگول تسلط سے آزاد ہوگئے۔ یوں عین جالوت کے میدان میں رکن الدّین بیبرس نے گویا منگول آندھی کو ہمیشہ کے لیے زمین کی گہرائیوں میں قید کر دیا۔ بعد میں سیف الدین قطز اپنے وعدے یا اس معاہدے سے مکر گیا جو اس نے بیبرس کے ساتھ جنگ سے قبل کیا تھا اور اس طرح ان کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور معرکۂ عین جالوت کے چند دنوں بعد پُراسرار طور پر سلطان قطز کا قتل ہوگیا۔ اس وقت چوں کہ رکن الدّین بیبرس وہاں کے مسلمانوں کی نظر میں دلیر اور ہیرو تھا، اس لیے امرا نے متفقہ طور پر اسے سلطانِ مصر تسلیم کر لیا۔
ایک انگریز مصنّف ہیریلڈیم نے لکھا ہے کہ بیبرس متعدد زبانیں جانتا تھا اور بعض مؤرخین کے مطابق وہ بھیس بدل کر فوج اور عوام کے انتظامات اور حالات پر نظر رکھتا تھا۔ بیبرس کو دمشق کے المکتبۃُ الظّاہریہ میں دفن کیا گیا۔