تازہ ترین

علّامہ عبدالعزیز میمن کا تذکرہ جنھیں ہم نے فراموش کر دیا

عربی زبان و ادب میں یدِ طولیٰ رکھنے والے علّامہ عبدالعزیز میمن کا نام ایک ثقہ عالم اور استاد کے طور پر عالمی شہرت کا حامل رہا ہے۔

بدقسمتی کہیے کہ آج پاکستان میں اس نادرِ روزگار شخصیت کے نام اور ان کے کام سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلِ زبان انھیں نہ صرف لغۃُ العربیہ کا امام مانتے رہے ہیں بلکہ یورپی مستشرقین ان کی علمی و تحقیقی بصیرت اور معیار کے معترف ہیں۔

علّامہ صاحب کا سارا کام تحقیقی نوعیت کا ہے اور نہایت مستند، جامع اور معیاری ہے۔ اس بلند پایہ مصنّف اور عالم نے تمام عمر ستائش اور صلے سے بے نیاز رہ کر کام کیا۔

پروفیسر علّامہ عبدالعزیز میمن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ پنجاب اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر رہے۔ وہ عربی لغت کی باریکیوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور ان کی عربی دانی کو اہلِ عرب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ عبد العزیز میمن نے 23 اکتوبر 1888ء کو راج کوٹ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ راج کوٹ اور جونا گڑھ سے شروع ہوا اور بعد میں وہ دہلی چلے گئے جہاں اپنے وقت کے جیّد علما اور ممتاز دینی شخصیات کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد سے بھی اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں انھوں نے جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔یہ علّامہ صاحب ہی تھے جن کی کوششوں سے قیامِ پاکستان کے بعد جامعہ کراچی میں شعبۂ عربی قائم ہوا۔ علمی گہرائی، تحقیق و تدقیق اور ذوقِ تالیف و تصنیف علّامہ صاحب کا خاصہ تھا، انھوں نے کئی مقالات سپردِ قلم کیے اور ان کے تحریر کردہ مضامین پر مشتمل متعدد کتابیں ان کی تحقیقی لگن، فکری بصیرت و تعلیمی شعور کا پتا دیتی ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے علّامہ عبد العزیز میمن کو ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

یہ عظیم استاد اور عربی داں 27 اکتوبر 1978ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -