تازہ ترین

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری نے برصغیر اور متحدہ ہندوستان میں اہلِ قلم اور اردو داں طبقہ میں ممتاز کیا اور ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے بھی انھوں نے بلند مقام و مرتبہ پایا۔

شبلی کے والد شیخ حبیب ﷲ اعظم گڑھ کے نامور وکیل اور شعر و ادب کے بڑے رسیا تھے۔ رفاہِ عام کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور انھوں نے اپنے بچّوں کو دنیاوی اور دینی تعلیم دلائی تھی۔ علامہ شبلی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور چند جیّد علماء سے استفادہ کیا۔ انھوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ علمِ دین سیکھا۔ بعد میں وکالت کا امتحان پاس کیا، لیکن اس میں ان کا دل نہیں‌ لگا۔

ان کے والد علی گڑھ تحریک کے ابتدائی ہم نواؤں میں سے تھے اور سر سیّد کے ساتھ رہے تھے۔ شبلی کبھی شعر و شاعری کی محفل سجاتے، کبھی طلبہ کو درس دیتے یا مطالعہ کرتے ہوئے وقت گزارتے تھے۔ چناں چہ اپنے اسی ذوق و شوق اور علمی و ادبی مشاغل کی وجہ سے علی گڑھ کالج سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں سرسیّد اور بعد میں پروفیسر آرنلڈ سے تبادلۂ خیال نے ان کے ذوق و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ شبلی سرسیّد کی زبان بولنے لگے اور مضامین و مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو سرسیّد کے افکار و خیالات کے زیراثر تھے۔ شبلی نے اپنی تحریروں‌ میں ہندوستان مسلمانوں کو اپنے اسلاف اور رفتگاں کی تعلیم اور مختلف ادوار میں مسلمانوں کی ترقیوں کے بارے میں‌ بتایا اور علم و عمل کی ترغیب دی۔شبلی نے اسلام اور شعائرِ اسلام پر دنیا کے اعتراضات کا جواب بھی دیا۔ ان کی شاعری سے زیادہ نثر مشہور ہوئی جو ان کی علمیت کے ساتھ اسلوب کا بھی پتا دیتی ہے۔

وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1882ء میں علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہونے کے بعد انھیں وہاں مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ و رسم اور ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا خوب موقع ملا جس کے باعث وہ جدید فکر و نظر کے حامل اور باکمال سیرت و سوانح نگار بنے۔ سیرت النّبی‌ ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی مشہور ہیں۔

علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔

Comments

- Advertisement -