تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

”میں تیرے دادا نور محمد کی نگاہیں آج تک نہیں بھول سکی۔پچاس سال ہونے کو آگئے ہیں مگر وہ نگاہیں آج بھی میرے سامنے ویسی ہی ہیں۔ آج صبح میں نے اس نفرت کی جھلک تیری آنکھوں میں دیکھی تو لگا کہ نور محمد دوبارہ آگیا ہے۔ اتنے برس بعد میں نے محسوس کیا کہ میں اس کنویں پر اب بھی کھڑی ہوں۔ میں نے اگر تم سے بات نہ کی تو ویسا ہی محسوس کروں گی جیسا جاتے ہوئے نور محمد نے میری طرف دیکھا تھا۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی میرے بچے….“ یہ کہتے ہوئے وہ زاروقطار رونے لگی۔ میں نے اسے رونے دیا۔ کچھ دیر بعد اس کا جی ہلکا ہو گیا۔


اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”پھر آپ پرونت کورسے نہیں ملیں“۔
”میں کسی سے بھی نہیں ملی، مجھے اپنا ہی ہوش نہیں تھا۔ میں نے ساری دنیا تیاگ دی تھی“۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ پھر ذرا سنبھل کر بولی۔”میں پتہ نہیں کیاہوں۔ سکھ ہوں یا مسلمان ہوں۔ بس خود کو عالم برزخ میں سمجھ رہی ہوں۔ نہ زندگی سے چھٹکارا ملتا ہے اور نہ موت گلے لگتی ہے۔ میرا جو کوئی بھی اب ہے، اس سے یہی بنتی کر رہی ہوں کہ ایک بار نور محمد ملا دے۔ وہ تو شاید میری قسمت میں نہیں پر رب نے اس کی تصویر تیرے روپ میں بھیج دی، شاید اب موت آسان ہو جائے “۔
اب میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سوال جیسے میں پوچھتا اور اگر کوئی سوال تھا بھی تو اس کے جواب میں کوئی نہ کوئی دکھ دینے والی کہانی ہی مجھے ملتی۔ میں نے روتے ہوئے دل سے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو مقررہ وقت سے تقریباً آدھا گھنٹہ اوپر ہو گیا تھا۔ میں ایک دم سے پریشان ہو گیا۔
”اب ہمیں چلنا چاہئے“۔
”کیوں کیا ہوا؟“ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ تو میں نے اسے سمجھایا کہ بھان سنگھ اور پریت کور باہر آگئے ہوں گے۔ میرے سمجھاتے ہی وہ اٹھ گئی۔ اس نے کھڑے ہو کے الوداعی انداز میں ہاتھ جوڑے اور میرے ساتھ باہر کی جانب چل دی۔ صدر دروازے کے بالکل سامنے انہوں نے جیپ روکی ہوئی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے سکون کا سانس لیا۔
”بہت مشکل سے رکے ہیں ہم یہاں، اجازت نہیں ہے….“ ہمارے بیٹھتے ہی گیئر لگاتے ہوئے بھان سنگھ نے کہا۔ پریت کور کا چہرہ خاصا خوشگوار تھا۔ میں خاموش رہا تو وہ بولا ۔ ”شاپنگ تقریباً کرلی ہے، اب کچھ کھانا ہے تو کسی ریستوران میں چلیں۔ پھر جو تمہارے ذہن میں….“
”واپس گاؤں چلو‘۔ میں نے بجھے ہوئے دل سے کہا تو اس نے میری طرف نظر بھر کے دیکھا، پھر گاڑی شہر سے باہر جانے والے راستے پر ڈال دی۔
جس وقت ہم حویلی میں واپس آئے،اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ جیپ سے اترتے ہی میں نے دیکھ لیا تھا کہ پریشان سے سریندرپال سنگھ اور ست نام کور سارے پریوار کے ساتھ دالان ہی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔ امرت کور گاڑی سے اترتے ہی واپس صدر دروازے کی طرف چل دی۔ اس نے کسی کی طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔ ہمارے قریب پہنچتے ہی ست نام کور نے پوچھا۔
”پتر خیر خیریت تورہی ہے نا….“۔
”جی ….! بس بلال کو لے کر شری پرمندر صاحب کے اندر رہی ہے اور ہمیں شاپنگ کے لیے بھیج دیا۔ اب اپنی منگوائی ہوئی چیزیں بھی یہیں بھول کر واپس چلی گئی ہیں“۔ بھان سنگھ نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”اس کا مطلب ہے بلال پتر نے امرتسر تو نہ دیکھا“۔ پردیپ سنگھ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”امرتسر کیا دیکھنا باپوجی! ہم نے تو کھانا بھی نہیں کھایا“۔ پریت کور نے کہا تو سبھی ہنس دیتے۔
”پھر خیر خیریت تو نہ رہی نہ….“ سریندر سنگھ نے کہا۔
”اچھا بھئی….! جو تھوڑ! بہت کھانا ہے کھالو، ابھی کچھ دیر پہلے سر پنچ جی تم دونوں کی دعوت کہہ گئے ہیں۔ اب انہیں تو ہم نہیں ٹال سکتے“۔ امریک سنگھ نے کہا۔ جو اس گھرانے کا سوشل بندہ تھا۔
”تم لوگ بیٹھو….! میں ان کے لیے دودھ لے کر آتی ہوں، پھر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے“۔ جسمیت کور چاچی نے کہا اور کچن کی طرف چلی گئی تو ہم بیٹھ گئے۔ خلاف توقع دادی پرونت کوروہاں نہیں تھی۔ میرے استفسارپر بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ میں پُرسکون سا ہو گیا۔ پھر ایک خیال آتے ہی امریک سنگھ سے پوچھا۔
”چا چا جی….! ہم کھانے سے کب تک واپس آجائیں گے“۔
”اوکا کا….! پہلے چلے تو جائیں، پھر واپس آنے کا بھی سوچ لیں گے“۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر انہی باتوں میں احساس ہوا کہ تقریباً دس بجے تک واپسی ہو گی۔ میں نے پریت کور سے لیپ ٹاپ کمرے میں رکھ دینے کو کہا اور پھر دودھ پی کر فریش ہونے کے لیے کمرے میں چلا گیا۔ وہ اس گاؤں میں میری آخری رات تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں یہاں آ کر اس قدر دکھ پاؤں گا۔ کاش میں اس گاؤں جھتوال میں کبھی نہ آتا۔
اگلی صبح میں نے اپنی تیاری کی۔ اپنے کاغذات وغیرہ سنبھالے اور نیچے دالان میں آگیا۔ چا چی جسمیت کور کچن میں تھی۔ باقی سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ میرے بیٹھتے ہی وہ حیران سی میرے پاس آگئی۔
”پتر تجھے اتنی جلدی ہے جانے کی، ابھی تو ناشتہ….“
”چا چی، بھان کہاں ہے؟“
”وہ ابھی مجھ سے چائے لے کر اپنی دادی کے کمرے میں گیا ہے، خیر تو ہے نا پتر“۔ اس نے تشویش سے پوچھا۔
”ہاں خیر ہی ہے“۔ میں نے کہا اور دادی کے کمرے میں چلا گیا۔ دادی ابھی تک بستر میں تھی اور بھان اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ دونوں کوئی بات کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بولیں۔
”آپتر….! بیٹھ“۔
”دادی، میں نے بیٹھنا نہیں ہے۔ بلکہ آپ کو تھوڑی دیر کے لیے میرے ساتھ باہر جانا ہو گا“۔ میں نے جس لہجے میں کہا وہ چند لمحے میری طرف دیکھتی رہیں، پھر چائے کی پیالی سائیڈ ٹیبل پررکھتے ہوئے بولیں۔
”چل پتر، کہاں جانا ہے“۔


دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم، اسی لیے تو آپ کو لے کر جارہا ہوں“۔ یہ کہہ کر میں نے بھان سنگھ کی طرف رخ کر کے کہا۔
”بھان، جو کچھ بھی ہوتا رہے یا جو بھی باتیں ہوں، تم اس پر سوال نہیں کرو گے، بس سنتے رہو گے، میں تیرے ہر سوال کا جواب دوں گا۔ جاؤ گاڑی نکالو“۔
”بلا ل خیر تو ہے، تُو بہت اپ سیٹ دکھائی دے رہا ہے“۔ بھان سنگھ تشویش سے پوچھا۔
”میں نے کہانا، کوئی سوال نہیں، میں تجھے ہر بات بتا دوں گا“۔ میں نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا تو اس نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا، پھر اپنی دادی کی طرف اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ میں نے دادی کو سہارا دیا اور باہر تک لے آیا۔ بھان گاڑی لے آیا تھا، میں نے انہیں بٹھایا ہی تھا کہ چا جی جسمیت آگئی۔
”کدھر جارہے ہو“۔ اس نے تجسس سے پوچھا تو دادی نے جواب دیا۔
”کہیں نہیں، بس آتے ہیں ہم۔ہمارے آنے تک تُو ناشتہ تیار کر لینا۔ آج بلال نے واپس جانا ہے“۔
وہ کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی اور واپس پلٹ گئی۔ حویلی سے نکلتے ہی میں نے بھان سنگھ سے کہا۔
”امرت کور کی حویلی کی طرف چلو“۔
تب دادی پرونت کورنے میرے چہرے پر دیکھا مگر خاموش رہی۔ ذرا سی دیر میں گاڑی ان کی حویلی کے سامنے جارکی۔ میں اترااور اندر چلا گیا۔ یوں اچانک اپنے گھر میں دیکھ کر وہ تھوڑا الجھے پھر خوشگوار حیرت سے خیر خیریت پوچھنے لگے۔ ہماری آوازیں سن کر امرت کور بھی باہر آگئی۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔
”میں ان کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے باہر جارہا ہوں“۔
وہ میرے ساتھ چل دیں تو کسی نے کوئی بات نہ کی۔ میں انہیں لے کر باہر آیا تو وہ گاڑی میں بیٹھی پرونت کورکو دیکھ کر ٹھٹکی ، پھر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ ایک دوسری کوست سری اکال کر چکیں تو میں نے کہا۔
”میں نے وہ جگہ دیکھنی ہے جہاں کبھی نور محمد کاگھر ہوتا تھا“۔
”اوہ…. ! تو یہ بات ہے“۔ پرونت کورنے کہا اور بھان کو سمجھانے لگی کہ کدھر جانا ہے۔ میں ان راستوں کو بڑے غور سے دیکھتا جارہا تھا جہاں میرے دادارہتے تھے۔ ان گلیوں کو دیکھ رہا تھا جن راہوں پر وہ چلتے پھرتے تھے۔ آخر ایک جگہ گاڑی رکوا دی گئی۔ پھر ایک طرف پکے مکان کی طرف اشارہ کر کے بولیں ۔
”یہ ہے پتر….! یہاں ان کا کچا گھر ہوتا تھا، اب یہ پکا بن گیا ہے“۔
میں گاڑی سے اتر کر کچھ دیر گلی میں ٹہلتا رہا۔ اتنی دیر میں گھر کے مکین باہر گاڑی رکنے کی آوازسن کر باہر آگئے۔ بھان نے ان سے بات کی تو ہم اندر چلے گئے۔ میں صحن میں کھڑا ہو گیا۔ یک لخت مجھے وہاں سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ مجھے یوں لگا جیسے وہاں موجود میرے پر دادا، میری پر دادی، میرے دادا کی بہن حاجراں مجھے مدد کے لیے بلا رہی ہیں۔ ان کی روحیں جیسے آج بھی بے چین ہیں۔ میں وہاں کھڑا اپنے آپ کو سنبھالتا رہا۔پھر تیزی سے باہر آگیا۔ میرے لیے وہاں کھڑا رہنا بہت بھاری ہو گیا تھا۔ میں گاڑی میں آ کر چند لمحوں تک خاموش بیٹھا رہا۔ تب امرت کور نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر عین دل کے مقام پر رکھ دیا۔ مجھے قرار آنے لگا۔
”اب وہاں جانا ہے، اس گھر کے مکینوں کی جلی ہوئی لاشوں کو دفن کیا گیا تھا“۔
بھان سنگھ نے گاڑی بڑھا دی۔ ہم گاؤں سے باہر نکلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ گاؤں سے ملحقہ سر سبز وشاداب فصلوں کے ایک قطعہ کے پاس جا پہنچے۔ ہم گاڑی سے اتر آئے۔
”یہاں ان سب کو لا کر دفن کر دیا گیا تھا“۔ پرونت کورنے کہا تو میں چند لمحے وہاں کھڑا رہا۔ میں جب گھر سے نکلا تھا تو وضو کر کے ہی نکلا تھا۔ میں نے کچھ کہے سنے بغیر اجتماعی نماز جنازہ کی نیت کی، جوتے اتارے اور پورے خشوع و خضوع سے نمازِ جنازہ کی نیت باندھ لی۔ مجھے یقین تھا کہ میں وہ واحد شخص ہوں جس نے اکیاون سال بعد ان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ شاید میرے آباؤاجدادخوش قسمت تھے کہ ان کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے کوئی آگیا تھا، ورنہ وہ لوگ بھی تقسیم ہند کی عظیم ہجرت میں شہید ہوئے جن کا نماز جنازہ تو کیا، دفن ہونا بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ کوئی دریاؤں، نہروں میں بہہ گئے، کئی نیزوں کی انیوں کے بعد جانوروں کے معدے میں جا پہنچے اور ان کی ہڈیاں رُل گئیں۔ کئی اندھے کنوؤں میں گل سڑ گئیں۔ ریل کی پٹریوں، کچے راستوں میں مارے گئے۔
نمازِ جنازہ ادا کرتے ہوئے میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا تھا۔ کیا میں نے کبھی ان کی نمازِ جنازہ پڑھی؟ میں جتنا بھی پاکستانی ہونے کا دعویدار ہوں، کیا کبھی آگ کا یہ دریا پار کرتے ڈوب جانے والوں کی نمازِ جنازہ ادا کی ، جن کی بے گوروکفن لاشیں زمین نگل گئی یا جانوروں اور پرندوں کے کام آئی۔ شہیدوں کی فیکٹری ساز طبقے کے منہ سے میں نے کبھی نہیں سنا کہ بے گناہ پاکستانی، جو ہجرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ان کے ایصال ثواب کا کوئی اہتمام کیا جائے، بڑے بڑے جغادری مسلم لیگی کرسی کے لیے جھپٹ رہے ہیں، ان شہیدوں کے لاشے بھول گئے، انہیں یاد رکھنے اور نئی نسل تک اس جذبے کو پہنچانے کا کتنا اہتمام کیا گیا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں رو رہا ہوں۔ میں نے ٹھہر ٹھہر کر پورے خلوص سے نمازِ جنازہ ادا کی۔ بڑے اہتمام سے دعا مانگی اور پھر پلٹ کر ان تینوں کو یکھا جو مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
”آپ لوگ مجھے حیرت سے نہ دیکھیں، یہ اﷲ نے ان بے گناہوں کے لیے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ میں توحیران ہوں۔ امرت کور جی کہ آپ کی یہ محبت کیسی ہے؟ کتنی خود غرض محبت ہے آپ کی، میں مان لیتا ہوں کہ نور محمد تو زندہ ہے، لیکن حاجراں تو آپ کی سہیلی تھی، آپ نے اس کی لاش کا بھی احترام نہ کیا۔ یہ کیسی محبت کا دعویٰ ہے اور دادی پرونت کور، کہاں ہے انسانیت کہ اکیاون برس گزر گئے او ر آپ کو ان بے کفن لاشوں کے احترام کا بھی خیال نہیں آیا۔ بے حرمتی کرتے رہے ہو آپ….!“ میرے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ پرونت کے ساتھ امرت کور بھی چونک کر میری طرف دیکھنے لگی۔
”پتر کیا ہو گیا ہم سے….“ دادی پرونت کورنے حیرت سے کہا۔
”جو زندہ لوگ ہوتے ہیں، ان کے ساتھ دشمنی کی جائے تو اچھا لگتا ہے۔ جو بے چارے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ ان کے ساتھ اس قدر زیادتی، اتنی بے حرمتی، کہ اکیاون برس کے بعد بھی انہیں قبر جتنی جگہ دے دی جائے، آپ لوگ تو رگھبیر سنگھ سے بھی آگے نکل گئے۔ ان کی قبروں پر یہ فصل اُگا دی۔ میں امرت کور جی سے سوال کرتاہوں۔ کیا یہی ہے ان کی محبت، پیار اور عشق۔ جس سے عشق ہوتا ہے نا، اس کی چیزیں بھی بڑی محترم ہوتی ہیں۔ مجنوں کو تو لیلیٰ کا کتا بڑا پیارا تھا، یہاں تو حاجراں آپ کی سہیلی تھی، آپ اسے ایک قبر کی جگہ بھی نہ دے سکے“۔
میں بہت ہی جذباتی انداز میں کہتے ہوئے ان کی طرف دیکھتا رہا اور وہ میری طرف دیکھ کر آنسو بہائے جارہی تھیں۔
”ہم سے غلطی ہو گئی پتر….!“ دادی پرونت کورنے بھیگتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آج جس طرح بابری مسجد کو یہاں بھارت میں گرا دیا گیا ہوا ہے۔ آپریشن بلیو سٹار میں ہرمندرکی بے حرمتی ہندوؤں نے کر دی ہے۔ ان کا تو پاکستان میں کچھ نہیں، کل اگر پاکستان میں یہ تحریک اٹھ کھڑی ہوئی کہ سکھوں کے مظالم کا ان سے حساب لیا جائے، ایک جنم استھان ہی کو گرا دیا جاتا ہے تو پھر….؟“
میرے یوں کہنے پر وہ لرزتے ہوئے کانپ گئیں۔ بھان سنگھ نے منہ کھول کر کچھ کہناچاہا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
”سکھ قوم کب تک ہندوؤں کے چنگل سے آزاد نہیں ہو گی، رگھبیرابدالی کی بات کر سکتا ہے تو کوئی پاکستان میں بلال اٹھ کر یہ اذان دے دے کہ نہ جانے کتنی حاجراں کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ ان کا حساب لینے کا وقت آگیا ہے، تو کوئی بھی سکھ یاتری لاہور اسٹیشن پر اترتے ہوئے ست سری اکال کا نعرہ لگا کر کرپان نہیں لہرا سکتا۔ ان لوگوں کے دل کتنے بڑے ہیں کہ تم لوگوں کی نشانیاں تک سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں اور آپ دونوں نے حاجراں کو کیا دیا۔ اس کی قبر پر فصل بو دی۔ بس میرا اتنا ہی سوال تھا آپ لوگوں سے ، آؤ چلیں“۔ میں اپنے آنسو پونچھتا ہوا تیزی سے گاڑی کی جانب بڑھا اور پسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ میں نے دیکھا دادی پرونت کوراور امرت کور ایک دوسرے کے گلے لگ کر اس طرح رو رہی تھیں کہ جیسے نور محمد آج ہی بچھڑا ہواور حاجراں آج ہی شہید ہوئی ہو۔ بھان سنگھ حیرت سے بت بنا کھڑا انہیں دیکھتا جارہا تھا۔ پھر جیسے اسے ہوش آگیا۔ اس نے دونوں کو الگ کیا اور سہارا دے کر گاڑی تک لے آیا۔ وہ میری طرف انتہائی تجسس اور حیران نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے اس کے سامنے کوئی ماورائی منظر ہو یا پھر وہ کوئی ڈراونا خواب دیکھ رہا ہو۔ اسی حیرت میں اس نے گاڑی بڑھا دی۔ وہ دونوں پچھلی نشست پر بیٹھی ہچکیوں میں روتی رہیں۔پھر دھیرے دھیرے بڑبڑاتے ہوئے گرنتھ صاحب سے پڑھنے لگی۔
برکہتہ کی چھائیا سی و رنگ لادے…. اوہ بنسئے اوہ من پچھتاوے…. جو دلیتے سو چالن ہار…. لپٹ رہئیو تہتہ اندھ اندھار…. بٹاؤ، سیو جو لاوے نیہہ…. تاکو ہاتھ نہ آؤے کیہہ….‘
(درخت کے سائے سے محبت کرنے والا ہمیشہ پچھتاتا ہے، جب درخت کا سایہ چلا جاتا ہے تو پچھتانا ہی پڑتا ہے۔ اس طرح جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ وہ سب جانے والا ہے۔ یہ عمل تو ایسا ہے جیسا من کا اندھا اپنے ہی من سے لپٹ جائے۔ راہ چلتے راہی سے جو محبت کرے وہ آخر میں روتا ہی ہے۔ وہ دل بھی دے بیٹھتا ہے اور ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہتا ۔ سب کچھ گم ہو جاتا ہے۔ )
یہاں تک کہ امرت کور کی حویلی آگئی۔ وہ کوئی بات کہے بغیر اتر کر چلی گئی۔ ہم حویلی آگئے۔ جہاں سبھی ہمارے منتظر تھے۔
”او کدھر گئے تھے تم لوگ“۔ پردیپ سنگھ نے پریشانی میں کہا۔
”او کہیں نہیں پتر….! بس ایویں میں تھوڑی دیر کے لیے بلا ل کے ساتھ باہر گئی تھی۔ چلو ناشتہ لگاؤ“۔
”وہ تو کب کا میز پر لگا دیا ہے بے جی، آپ آؤ“۔ انیت کورنے ہمارے چہروں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر ہم سب ناشتے کی میز پر بیٹھ گئے۔ میں نے بے دلی سے ناشتہ کیا۔ مگر ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنا سامان اٹھا یا اور کہا۔ ”اب مجھے اجازت دیں“۔
”لے پتر….! ہماری طرف سے کچھ تحفے ہیں، تمہارے لیے تمہارے پریوار کے لیے یہ ساتھ لے جا“۔ انیت کور نے ایک سیاہ چرمی بیگ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ما ں جی….! میں یہ تحفے ضرور لے جاتا، لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ لاہور نہیں پہنچیں گے، رستے ہی میں غائب ہو جائیں گے۔ کیوں ضائع کروں انہیں“۔ میں نے کہا تو انہوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ بات ان کی سمجھ میں آرہی تھی۔ کسٹم حکام خصوصاً پاک بھارت سرحد پر اتنی سختی کرتے ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے اور وہیں سب کچھ چھوڑ جاتا ہے۔
”چل پتُر….! تو ہماری طرف سے لے جا، آگے غائب ہو جائیں تو کوئی بات نہیں، ہمیں حسرت تو نہ رہے گی نا….“ جسمیت چاچی نے کہا تو سبھی اصرار کرنے لگے۔ میں نے دادی پرونت کورکی طرف دیکھا اس نے چھلکی آنکھوں سے وہ تحفے قبول کرنے کا اشارہ دے دیا۔ میں نے وہ تحفے کا بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھا۔ سب وہیں صحن میں آگئے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی جیب سے اپنی جمع پونجی نکالی، جو تقریباً ہزار پونڈ کے لگ بھگ تھی۔ اس میں سے سو پونڈ نکالے اور پریت کور کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔”پرپت، اگر بھائی سمجھو تو میری طرف سے ایک گہنا بنوا لینا اور اگر بھابی کہنے کا حق دو تو ابھی سے منہ دکھائی لے لو“۔
میرے یوں کہنے پر سبھی ہنس دیئے۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ میرے گلے لگ کر رو دی۔ میں نے اس کے سر پر تھپکی دی اور الگ کر دیا۔ اس نے اپنا جواب دے دیا تھا۔ باقی نوٹ جو میرے ہاتھ میں تھے۔وہ میں نے دادی پرونت کورکے قدموں میں رکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
”یہ قرض نبھا دیں…. میری طرف سے….“
”اسے جیب میں ڈال لو پتر…. سمجھو وہ قرض آج ہی ادا ہو جائے گا“۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور رقم میری جیب میں ڈال دی۔ میں پلٹا، سب سے ملا اور گاڑی میں جا بیٹھا۔ بھان اور پریت گاڑی میں آن بیٹھے اور گاڑی چل دی۔
”امرت کور کی طرف جانا ہے“۔ بھان سنگھ نے پوچھا۔
”ہاں“۔ میں نے دھیرے سے کہا تو وہ اس طرف مڑ گیا۔
گاڑی حویلی کے صدر درازے پر جا رکی۔ تبھی میں نے دیکھا، وہ گھر سے نکل رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی سریندرپال سنگھ نے اونچی آواز میں کہا۔
”او تم چل بھی پڑے، ہم ادھر آرہے تھے“۔
”بس میں خود ہی آگیا۔ اب اجازت دیں“۔ میں نے گاڑی سے اتر کر کہا۔ ان میں امرت کور نہیں تھی۔ اس کی بیوی اور بیٹی تھی، یاپھر ہمیں دیکھ کر ان کے ملازم آگئے تھے۔ میری نگاہوں کو بھانپ کر سریندر سنگھ نے ایک ملازمہ کو امرت کور کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ جلدی سے پلٹ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ تیزی سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ چند لمحے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر اپنے سینے سے لگا کر دھاڑیں ما کر رونے لگی۔ کسی نے بھی اسے رونے سے نہیں روکا۔ میں بھی اس کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ اس کے آنسووؤں سے میری شرٹ گیلی ہو گئی۔ میں نے اسے خود سے الگ کیا اور کہا۔ ”اب مجھے اجازت دیں“۔
”جا رب راکھا….! پر ایک وعدہ کرو۔ ایک بار پلٹ کر ضرور آؤگے…. میں نے تیرا قرض ادا کرنا ہے“۔
”میں پوری کوشش کروں گا کہ بھان کی شادی پر آؤں اور ممکن ہوا تو اپنے ساتھ کسی کو لے کر ہی آؤں“۔ میں نے کہا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ میں نے آنکھیوں کے اشارے سے انہیں یقین دلایا۔ وہ ششدر سی رہ گئی۔ پھر اسے حیرت زدہ چھوڑ کر میں گاڑی میں آبیٹھا۔ بھان سنگھ نے گاڑی بڑھا دی۔ ہمیں کچھ دیر وہاں کی پولیس چوکی میں ہو گئی۔ وہ تھانیدار حیران تھا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں جارہا ہوں۔ خیر …. گاؤں سے نکلتے ہی بھان سنگھ نے میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔
”چل اب شروع ہوجا، یہ کیا ڈرامہ تھا؟“
”کاش میں تیرے گاؤں نہ آیا ہوتا بھان سنگھ تو ماضی کے کئی انکشافات پر پردہ پڑا رہتا۔ اس کہانی میں تیرے لیے ہی نہیں میرے لیے بھی اتنے حیران کن انکشاف ہیں کہ میں چکرا کر رہ گیا ہوں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس میں اگر نفرت انگیز باتیں ہیں تو صدقِ دل سے مانگی ہوئی دعاؤں کا بھی اثر ہے۔ وہ رب ہے نا بڑا کار ساز ہے“۔ میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ اکتاتے ہوئے انداز میں بولا۔
”اچھا …. اب زیادہ سسپنس مت پھیلا، کچھ منہ سے پھوٹے گا بھی“۔
”بھان….! میری طرح تمہیں بھی کہانی ابھی ادھوری لگے گی، اس کا ایک کردار ابھی پاکستان میں ہے، میں تمہیں وہ بھی سناؤں گا۔ بس تُو چپ چاپ سنتا چلا جا“۔ یہ کہہ کر میں نے دھیرے دھیرے ساری روداد اسے سنانا شروع کر دی۔ درمیان میں اس کے اور پریت کے سوال چلتے رہے۔ جس وقت ہم امرتسر میں دوستی بس کے ٹرمینل پر پہنچے تو میں وہ روداد ختم کر چکا تھا، بہت ساری باتیں میں نے انہیں بتائیں تھیں۔

جاری ہے
*********

Comments

- Advertisement -