اشتہار

بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

اشتہار

حیرت انگیز

یہ بیگم انیس قدوائی کا مختصر تعارف اور ان کی اُس خود نوشت کی تحریری جھلک ہے جو ایک طرف تو متحدہ ہندوستان کے حالات اور بٹوارے کی کرب انگیز کہانیاں سناتی ہے اور دوسری طرف اسے پڑھ کر ہم اس زمانے کی کئی نمایاں شخصیات اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہوسکتے ہیں۔

کتاب کی مصنّف بیگم انیس قدوائی نے اس آپ بیتی میں ایک جگہ لکھا ہے۔

"1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔”

- Advertisement -

بیگم انیس قدوائی گاندھی اور ان کی فکر سے بہت متاثر تھیں۔ گاندھی بھی ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ انیس کے شوہر کی بٹوارے کے موقع پر ہلاکت کے بعد گاندھی جی نے دل گرفتہ اور مایوس انیس قدوائی کے نام اپنے خط میں لکھا: "تمہارا درد اتنا وزنی ہے کہ اس کو سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے، یہ درد بانٹنا مشکل ہے لیکن تم تو انیس ہو، تم ان کیمپوں میں جاؤ، جہاں ایسے ہی مایوس دلوں کی بھیڑ لگی ہے۔ جاؤ اور انہیں دلاسہ دو۔ کیوں کہ تم ہی ایسا کرسکتی ہو۔”

انیس قدوائی نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ ایک باشعور عورت، علم و ادب کی شوقین خاتون ہی نہیں رہیں، بلکہ ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی شہرت پائی، ایک ایسی خاتون جس نے بلا تفریقِ مذہب و ملّت بٹوارے کے موقع پر فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو سنبھالا اور ان کی باقی ماندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ بن پڑا، وہ کیا۔

اگر ہندوستان میں ادبی دنیا پر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی میں خواتین نے جہاں ناول، افسانہ، مختلف موضوعات پر تحریریں‌ لکھ کر نام و مقام بنایا وہیں آپ بیتیاں بھی سامنے آئیں اور ان میں ہم متحدہ ہندوستان کے حالات، دلّی کی بربادی کا قصّہ، آزادی کی جدوجہد اور تقسیمِ ہند کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت نے بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ان کی یہ آپ بیتی ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی اور بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں انیس قدوائی نے اپنے فلاحی کاموں اور اس دوران ہونے والے تجربات کے ساتھ ہندوستان کی تاریخی اور سماجی تصویر بھی پیش کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ادیب اور سماجی کارکن انیس قدوائی بارہ بنکی کے مشہور نیشنلسٹ قدوائی خاندان کی فرد تھیں۔ وہ بھارت میں 1956 سے 1968 تک راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں۔ ان کے والد وکیل تھے اور معروف اخبار ’کامریڈ‘ اور ’نیو ایرا‘ میں مزاحیہ کالم بھی لکھتے تھے۔

بیگم قدوائی 1902ء میں پیدا ہوئیں اور 1982ء تک حیات رہیں۔ ان کے خاوند کا نام شفیع احمد قدوائی تھا اور ان کے بھائی اُس وقت کے وزیرِ قانون رفیع احمد قدوائی تھے۔ خاوند کے فسادات میں مارے جانے کے بعد بیگم صاحبہ لاوارث بچّوں کو تحفظ دینے اور ان کی دیکھ بھال کے اداروں کے قیام کے لیے کوشاں رہیں۔

یہ خود نوشت اردو نثر کی کسی بھی مصنّفہ کی سواںح اور تاریخ کی کتاب کے مقابلے میں اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اسے ایک باہمّت، بلند حوصلہ عورت نے رقم کیا جس کا گھر بٹوارے نے چاٹ لیا تھا، لیکن اس نے اپنی زندگی کو بامقصد اور تعمیری انداز سے گزارا اور اپنے غم و اندوہ کو ایک مثبت طاقت میں تبدیل کر دیا۔

انیس قدوائی کی اس خود نوشت میں ان کی نثر پُر زور اور شگفتہ ہے۔ وہ اپنا طرزِ تحریر خوب صورت اشعار سے اس طرح سجاتی ہیں کہ اکثر مقامات پر ان کی نثر میں اشعار کی وجہ سے معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔

اس کتاب کے پیش لفظ میں انیس قدوائی لکھتی ہیں۔ "انیسویں صدی کا صعوبت، افلاس اور افراتفری سے بھرپور دور اپنی دکھ بھری کہانیوں کی بدولت جہاں تاریخ کا جزو بنا، وہیں اس مردم خیز زمانے نے ایسی ایسی شخصیتیں بھی ہندوستان کو تفویض کیں جنہوں نے تاریخ، صحافت، علم، سیاست اور شعر و ادب کی دنیا کو بھی مالا مال کر دیا۔”

اپنی کتاب کے مندرجات سے متعلق وہ لکھتی ہیں، "اگلے صفحات میں آپ جن قابلِ قدر ہستیوں سے روشناس ہوں گے، وہ سب انیسویں صدی کی پیداوار اور بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں۔ ان کی علمی قابلیت، اخلاقی کردار، تدبر، خوش ذوقی، دنیا سے محبت بھرا لگاؤ اور دینی خوش عقیدگی موجودہ دور میں شاید عجیب معلوم ہو، لیکن وہ اس وقت ہمیں آئیڈیل، موزوں اور خالص ہندوستانی پیداوار کی حیثیت سے بہت محبوب تھے۔”

وہ مزید رقم طراز ہیں، "لکھنے کا کوئی مقصد ہونا چاہیے، لیکن ماضی کو دہراتے وقت اکثر مقصد نگاہ سے اوجھل ہو کر صرف خاکہ یا افسانہ رہ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قارئین اس میں سے اپنی پسند کی یا ضرورت کی کوئی بات چن لیں۔ صفحاتِ کاغذ پر اجاگر ہونے والوں کی خاک مٹی میں مل چکی۔ بس یہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ویرانے دیوانوں کا تختۂ مشق نہ بن جائیں۔ بقول صفیؔ لکھنوی

آج دیوانہ اڑاتا ہے جو ویرانے کی خاک
کل اڑائے گا یونہی ویرانہ دیوانے کی خاک

اس لیے اس خاک کو سمیٹ، عزت و احترام کے ساتھ نذرِ گلستاں کر رہی ہوں۔”

بیگم انیس قدوائی نے اپنی اس خودنوشت میں ایک مقام پر لکھا، "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔ اقبال کا شعر پڑھا تو بہت مرتبہ تھا مگر اس کے صحیح معنیٰ سمجھ میں آنے کا شاید یہی وقت مقرر تھا اور میں قائل ہو گئی کہ واقعی؎

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

دہلی میں لاکھوں آدمی دیکھے مگر ان میں اور ہندوستان کے اس قدیم مایہ ناز انسان میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ یہ ایک نیا دور تھا جس میں ہماری شجاعت اور سورمائی بچہ کو قتل کر کے بھی اتنی ہی مطمئن اور خوش ہو سکتی تھی جتنا کہ کسی بڑے دشمن کو ختم کر کے ہوتی۔ مسلمان بے تحاشا بھاگ کر کسی کونے میں چھپ کر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتا تھا جیسے کوئی میدان مار کر آیا ہو۔ ایک دوسرا کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر خوشی سے ناچ جاتا تھا کہ وہ پورا سپاہی بن گیا ہے۔ ملیح چہروں والے نوجوان لڑکے کالج اور اسکولوں کو چھوڑ کر دیا سلائی، مٹی کا تیل، اینٹیں اور چاقو اکٹھا کرنا تحصیل علم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور پھر

گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

یہ تھا سینتالیس، اڑتالیس کا ہندوستان جس کی تصویر میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ پڑھنے والے لطف اندوز ہوں بلکہ اس لیے کہ:

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

اسی کتاب میں انیس قدوائی نے اپنے شوہر سے خط کتابت کا بتایا ہے جو تقسیم کے موقع پر دوسرے شہر میں مقیم تھے، وہاں وہ کیا کررہے تھے اور جب فسادات پھوٹے تو ان پر کیا بیتی یہ سب اس کتاب میں بتایا ہے۔ یہ کتاب اپنے طرزِ تحریر کے سبب ایک تصویری کہانی بن گئی ہے جس میں کرب ہے، کڑے وقت میں انسانی رویّوں کی منظر کشی ہے اور بہت کچھ جسے پڑھ کر دل بھر آئے۔

انیس قدوائی کو طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری سے دل چسپی اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ "آزادی کی چھاؤں میں” کے علاوہ ان کی تصنیف "نظرے خوش گزرے” اور "اب جن کے دیکھنے کو” کے نام سے شایع ہوئیں۔ آخرالذّکر ان کے تحریر کردہ 13 دل چسپ اور یادگار خاکوں کا مجموعہ” ہے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں