آج پاک و ہند میں کئی ادارے اور گروہی شکل میں بھی لوگ جذبۂ خدمت سے سرشار ہوکر فلاح و بہبود کی سرگرمیوں اور رفاہِ عامّہ کے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ خدمتِ خلق اور انسانیت سے پیار کی عکاسی کرتی کئی تصویریں اور ویڈیوز ہم سوشل میڈیا پر اکثر دیکھتے رہتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں یا کم از کم نئی نسل کے لیے تو انجمنِ حمایتِ اسلام کا نام بھی نیا ہی ہوگا جسے برِصغیر کی قدیم رفاہی تنظیم اور تعلیمی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔
انجمنِ حمایتِ اسلام کی داغ بیل ایک ایسے نازک وقت میں ڈالی گئی کہ جب 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی و معاشی حالت نہایت دگرگوں تھی جب کہ باثروت مذہبی گروہ اپنی حمایت یافتہ تنظیموں کے ذریعے بے بس مسلمانوں کا استحصال کر رہے تھے۔ ان حالات میں یہ انجمن مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہوئی۔
انجمن کا قیام 1884ء میں عمل میں لایا گیا۔ اس وقت اندرونِ لاہور کے موچی دروازے کی مسجدِ بکن خان میں مختصر اجتماع میں انجمن کی تشکیل کا اعلان کیا گیا تو عام لوگوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی، لیکن بعد میں ’’انجمنِ حمایتِ اسلام‘‘ کے پلیٹ فارم سے وہ کارنامے انجام دیے گئے جن کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس انجمن سے لاکھوں افراد مستفید ہونے لگیں گے اور یہ تناور درخت بن جائے گی۔ اس انجمن کا مقصد غریب، یتیم اور بے سہارا بچوں اور عورتوں کی کفالت اور ان کی دینی و دنیوی تعلیم تھا۔ ادارے کے زیرِ انتظام کئی اسکول، کالج اور یتیم خانے، پناہ گاہیں، غذائی اجناس و اشیاء کی تقسیم کے کام ہوئے۔ کئی قد آور علمی و ادبی شخصیات بھی اس انجمن سے وابستہ رہی ہیں جن میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔
شاعرِ مشرق علاّمہ محمد اقبال کی انجمن سے وابستگی اس ادارے کی تاریخ کا بھی ایک اہم باب ہے۔ اس بابت ’’روزگار فقیر‘‘ میں سیّد وحید الدّین لکھتے ہیں کہ ’’علاّمہ اقبال، انجمنِ حمایتِ اسلام، لاہور کو مسلمانوں کی تعلیم و تنظیم اور اشاعتِ دین کا موزوں پلیٹ فارم اور ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کے ساتھ ایک بار جو تعلق قائم ہوا، اُسے مرتے دم تک منقطع نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے پہلی بار انجمن کے جلسے میں اپنی مشہور نظم، ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھی۔ پہلے انجمن کے جنرل سیکریٹری کے طورپر فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد انہیں انجمن کا صدر مقرّر کیا گیا۔ شدید علالت کے سبب انہیں صدارت سے مستعفی ہونا پڑا، لیکن اس سے قبل اُن کی یہ کیفیت رہی کہ کمزوریٔ بصارت کے سبب پڑھنے میں دقّت ہوتی تو انجمن کے کاغذات پڑھوا کر سنتے اور ان پر نوٹ اور ضروری احکام لکھوا کر دست خط کرنے کے بہ جائے اپنے نام کی مہر لگواتے۔
انجمن کے جلسوں میں پابندی کے ساتھ شرکت کرتے۔ انجمن کے جلسوں میں اپنی تازہ نظمیں پڑھنا، اُن کا معمول تھا۔ انجمن کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے حکیمِ مشرق نے بارہا اپنی نظمیں پڑھیں۔ انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’شکوہ‘‘ بھی انجمن کے سالانہ اجلاس میں پڑھی۔ 1936ء میں انجمن کی سالانہ کانفرنس میں شریک ہوئے، مگر خرابیٔ صحت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ خود نظم سنانے کے قابل نہ تھے۔
ان کی یہ نظم جس کا پہلا مصرع’’؎ خودی کا سِرّ نہاں لا الہ الا اللہ‘‘ ہے، ایک اور صاحب نے پڑھ کر سنائی۔ وہ انجمن کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے انجمن کے ساتھ اپنے تعلق کو جس طرح قائم رکھا اور آخری دم تک نبھایا، وہ اُن کے کردار کا ایک نمایاں اور سبق آموز پہلو ہے۔ انتقال سے قبل اپنی وصیّت میں انہوں نے اپنا ذاتی کتب خانہ انجمن کے قائم کردہ اسلامیہ کالج کی لائبریری کو عطیے کے طور پر دینے کی ہدایت کی، کیوں کہ یہی کتابیں اُن کا زندگی بھر کا سرمایہ اور اثاثہ تھیں۔‘‘