تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

اردو زبان، تاریخ و ادب، مذہب اور صوفیا کی ارادت مند مستشرق این میری شمل

ڈاکٹراین میری شمل ممتاز جرمن اسکالر، ماہرِ اقبالیات اور مستشرق تھیں جنھوں‌ نے اردو زبان سے اپنی محبّت اور شعروادب سے لگاؤ کے سبب کئی علمی و ادبی مضامین تحریر کیے اور پاک و ہند کے نام ور ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔

ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 19 سال کی تھیں جب ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے انھوں نے ڈاکٹریٹ کی سند لی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

وہ کئی کتابوں‌ کی مصنف تھیں جب کہ کئی علمی و ادبی موضوعات پر ان کی تحقیق و ترجمہ شدہ کتب شایع ہوئیں۔ مسلمان ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعروسخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب و تخلیقات کو مطالعہ کیا اور ان میں‌ گہری دل چسپی لی۔

وہ متعدد بار پاکستان بھی آئیں جہاں انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا اور اس شعبے کی قابل پاکستانی شخصیات سے ملاقات میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ 26 جنوری 2003ء کو این میری شمل وفات پاگئی تھیں۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی ان کی علمی و ادبی کاوشوں اور اردو زبان کے لیے ان کی خدمات کو سراہا گیا اور لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

ڈاکٹر شمل سنہ 1992 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے اتنی گہرائی سے نہیں لکھا تھا۔ انھیں نہ صرف امریکا بلکہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ ان کے اپنے وطن جرمنی میں بھی بے انتہا پذیرائی ملی۔ انھیں متعدد ایوارڈز اور اعزازی اسناد سے نوازا گیا۔

Comments

- Advertisement -