جمعرات, نومبر 7, 2024
اشتہار

صحت کارڈ سے ڈاکٹر نے سال میں 773 اپنڈکس آپریشن کر ڈالے، تحقیقات شروع

اشتہار

حیرت انگیز

پشاور: خیبر پختون خوا کے ضلع دیر بالا میں جراحی کے ماہر ڈاکٹر کو ایک سال میں ریکارڈ آپریشن کرنا مہنگا پڑ گیا، محمکہ صحت کی تحقیقاتی کمیٹی نے ایک ہی بیماری کے سال میں ریکارڈ 773 آپریشنز کی جامع تحقیقات کی سفارش کر دی۔

تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا میں ’صحت کارڈ پروگرام‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ایک بڑا عوامی فلاحی منصوبہ ہے، جس کے ذریعے عوام دل سمیت مختلف بیماریوں کا علاج صوبے اور ملک کے مختلف اسپتالوں میں بالکل مفت کر سکتے ہیں۔

تاہم صوبے کے دور افتادہ ضلع دیر بالا میں قائم ایک چھوٹے سے نجی اسپتال اخلاص میڈیکل سینٹر کی انتظامیہ کی جانب سے صحت کارڈ پروگرام کے تحت صرف ایک سال میں 26 سو 2 آپریشنز کی رقم وصول کرنے پر جب محکمہ صحت کی جانب سے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ مرتب کی تو، پتا چلا کہ مذکورہ نجی اسپتال ضلع کے واحد سرکاری اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر صاحبزادہ امتیاز احمد اور سرکاری اسپتال کے سرجن ڈاکٹر سمیع اللہ کی مشترکہ ملکیت ہے۔

- Advertisement -
سرجن ڈاکٹر سمیع اللہ

اس اسپتال میں ایک سال کے قلیل عرصے میں 2602 آپریشنز کیے گئے ہیں، جن میں اپنڈکس کے 1826 آپریشنز بھی شامل ہیں، اے آر وائی نیوز کو موصولہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اپنڈکس کی 1826 سرجریز میں سے اسپتال کی ملکیت میں شراکت دار ڈاکٹر سمیع اللہ نے ریکارڈ 773 آپریشنز کیے ہیں، اور اس کا اعتراف ڈاکٹر نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بھی کیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق ڈاکٹر سمیع اللہ نے ایک سال میں اپنے نجی اسپتال میں ان 773 آپریشنز کے ساتھ ساتھ سرکاری اسپتال میں 321 آپریشنز بھی کیے۔

رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر سمیع اللہ نے تمام آپریشن اپنڈکس کے کیے جب کہ کمیٹی نے انشورنس کمپنی سے حاصل ڈیٹا کا معائنہ کیا تو اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ کئی خاندانوں کے دو اور دو سے زائد افراد کے اپنڈکس کی سرجری بھی کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق سرکاری اسپتال کو مذکورہ ایم ایس نے صحت سہولت پروگرام کے پینل میں شامل نہیں ہونے دیا، کیوں کہ وہ سرکاری اسپتال کو اپنے نجی اسپتال کے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر سمیع اللہ نے اپنڈکس کے آپریشنز کی مد میں انشورنس کمپنی سے 3 کروڑ روپے کی خطیر رقم وصول کی، جو نجی اسپتال کی جانب سے کلیم کی گئی رقم کا 70 فی صد بنتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نجی اسپتال میں اپنڈکس کے روزانہ 10 آپریشن کیے گئے، ضلع دیر اپر میں اپنڈکس کی یہ شرح ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی شرح ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں اپنڈکس کی شرح تمام آپریشنوں کا 1.2 فی صد ہوتی ہے، تاہم ضلع دیر اپر کے نجی اسپتال میں مجموعی آپریشنز کے مقابلے میں اپنڈکس کی یہ شرح 70 فی صد سے بھی زائد رہی ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ صحت کارڈ پر ہونے والی سرجریوں کا پتا لگانے کے لیے کلینکل آڈٹ کی جائے اور رپورٹ کردہ خاندانوں اور بچوں سے جراحی کے نشانات کی جانچ کر کے توثیق کی جائے تاکہ پتا چل سکے کہ واقعی میں اپنڈکس کے آپریشنز کیے گئے یا صرف مالی فائدے کے لیے مذکورہ افراد کے شناختی کوائف استعمال کیے گئے۔

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق مذکورہ انکوائری صوبے میں صحت کارڈ پروگرام کی پہلی باضابطہ انکوائری ہے، جس میں سامنے آنے والے انکشافات کے بعد بعد مزید اضلاع اور نجی اسپتالوں کے خلاف بھی تحقیقات پر غور کیا جا رہا ہے۔

نجی اسپتال کا مؤقف

نجی اسپتال انتظامیہ نے اپنے مؤقف میں کہا ہے کہ ضلع دیر اپر کی کل آبادی تقریبا 11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، گزشتہ ایک سال (2022) میں کیے گئے 1826 آپریشنز کا ماہانہ تناسب 150 اور روزانہ کی شرح پانچ بنتی ہے۔

انتظامیہ کے مطابق ان کے اسپتال میں ہرنیا، کولیسٹیکٹومی، سی سیکشن، یو آر ایس، رینل اسٹون، ٹنسلیکٹومی اور اپینڈیکٹومی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، جن میں اپینڈیکٹومیز کا غلبہ اس لیے ہے کیوں کہ زیادہ تر مریض طویل طریقہ کار کے لیے ضلع سے نیچے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کا مؤقف تھا کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود اپنڈکس کی شرح فی 1000 آبادی اوسط سے کم ہے، اسپتال انتظامیہ کے مطابق صحت کارڈ کے دور سے پہلے بھی DHQH کے ریکارڈ سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ روزانہ 5 سے 6 اپینڈیکٹومیاں کم شرحوں کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں اور یہی DHQH میں 22 دسمبر سے صحت کارڈ کی سہولت شروع ہونے کے بعد بھی جاری ہے۔ تو یہ کوئی وبائی صورت حال نہیں ہے بلکہ عام اعداد و شمار ہیں۔

نجی اسپتال کے منیجر فواد نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ ڈاکٹر سمیع اللہ نے 773 سرجریز میں 168 دیگر بڑی سرجریاں بھی کی ہیں، اور یہ ضلع کا واحد اسپتال ہے جس میں صحت کارڈ کی سہولت دستیاب ہے، اپنڈکس کا کیس ایک ایمرجنسی والی حالت ہوتی ہے، اسپتال آنے والے مریضوں کو ہم انکار تو نہیں کر سکتے، اور ہم نے تمام آپریشنز میں تصاویر کا ڈیٹا بھی متعلقہ حکام کو فراہم کر دیا ہے، اور جو رپورٹ مرتب کی گئی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں