اپینڈکس کو عام طور پر لاعلاج مرض سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیشتر مریض درد اٹھنے کے بعد اسے نکلوا دیتے ہیں۔
اب تک ڈاکٹرز بھی اپینڈکس کو خطرناک قرار دے کر مریض کو فوری آپریشن کروانے کی ہدایت کرتے تھے مگر امریکا میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اپینڈکس یا ضمیمہ کا علاج آپریشن کے بجائے اینٹی بائیوٹکس سے بھی کیا جاتا ہے۔
امریکی ماہرین نے اپینڈکس کے مریضوں پر اینٹی بائیوٹک ادویات کی تحقیق کی جس کے دوران اہم پیش رفت سامنے آئی۔ دی نیو انگلینڈ اینڈ جنرل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مطالعے کے دوران 1 ہزار 552 نوجوان مریضوں کو ادویات دے کر اُن کے درد کا مطالعہ کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق تحقیق میں شامل 70 فیصد سے زائد مریضوں کو اینٹی بائیوٹیکس کا استعمال کرایا گیا تو اُس کے نتیجے میں انہیں کافی افاقہ ہوا اور آپریشن کو کم از کم 90 دن تک ٹالنے میں مدد ملی۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ڈیوڈ ٹالان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے اینٹی بائیوٹکس والے مریضوں کا موازنہ اُن مریضوں سے کیا جو آپریشن کراچکے ہیں تو ہمیں یہ شواہد ملے کہ ادویات کے ایک ماہ استعمال سے مریض کو کافی آرام ملا اور اُس کی طبیعت بہتر ہوئی‘۔
مزید پڑھیں: اپینڈکس کے آپریشن کے بجائے ڈاکٹروں نے بچی کا گردہ نکال دیا
انہوں نے بتایا کہ ’ سرجری کے مقابلے میں اینٹی بائیوٹک کے اثرات مجموعی طور پر بہتر نکلے اور حیران کن طور پر تشویش ناک قرار دیے گئے مریضوں کا آپریشن بھی ملتوی ہوا‘۔
اس تحقیق میں 14 امریکی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ ہزار سے زاائد مریضوں کو شامل کیا گیا جن کو آپریشن سے پہلے اینٹی بائیوٹیکس ادویات کا استعمال کرایا گیا۔ محققین کا کہنا تھا کہ اپینڈکس کے مریضوں کے علاج پر ہونے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔
ماہرین کے مطابق ’اینٹی بائیوٹکس اگر ایک ماہ استعمال کی جائیں اور مریض مکمل آرام کرے تو اس کا فائدہ نظر آتاہے، اب ضروری ہے کہ مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کا مشورہ بھی دیا جائے تا کہ وہ اپنے مرض سے چھٹکارے کے لیے بہتر علاج کا انتخاب کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: ڈاکٹروں کی سنگین غفلت، لڑکی زندگی بھر کے لیے معذور
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے والے ہر 10 میں سے 3 مریضوں کو 90 دن میں سرجری کے عمل سے گزرنا پڑا‘۔ ماہرین نے کہا کہ ’جیسے آپریشن کے فوائد اور نقصانات ہیں اسی طرح اینٹی بائیوٹک کے بھی ہیں، اب یہ مریض کا استحقاق ہے کہ وہ کس علاج کو بہتر سمجھتا ہے‘۔