پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر بیہمانہ حملے کو آٹھ سال کا عرصہ بیت چکا، مگر یہ ہولناک اور کرب دہ سانحہ آج بھی ہمارے ذہنوں میں کل کی طرح تازہ ہے۔
پشاور میں آٹھ سال قبل ہونے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں شہید ہونے والوں کی آج آٹھویں برسی منائی جارہی ہے۔
سولہ دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے اے پی ایس پر بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے 132 طالبِ علموں اور عملے کے 17 افراد کو شہید کردیا تھا۔
بزدلانہ حملے کے وقت اسکول میں کلاسيں جاری تھی اور 11 بجے کے قريب فائرنگ اور بم دھماکوں سے علاقہ گونج اٹھا، اسکول کے آڈيٹوريم ميں سب سےزيادہ بچوں کو نشانہ بنايا گيا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے اسکول کا گھیراؤ کیا اور خود کار اسلحے سے لیس کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 خود کش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد ہلاک کیا۔چھ گھنٹے سے زیادہ کے آپریشن کے بعد اسکول کو کلئیر کیا گیا،اس واقعے نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نئی روح پھونکی جس کے بعد حکومت اور دیگر اداروں نے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردوں کا صفایا کیا۔
دل خراش واقعے میں اپنے جگر گوشوں کو کھونے والے اپنے بچھڑے پیاروں کو یاد کرتے ہیں تو آنسو ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتے تاہم جب انہیں شہدا کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے تو وہ خود کو ممتاز سمجھتے ہیں۔
جہاں ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ شہدا آرمی پبلک سکول کی قربانیوں کی بدولت ممکن ہوا وہیں تعلیم دشمن عناصر کے عزائم بھی خاک میں مل گئے۔
شہید طاہرہ قاضی پرنسپل آرمی پبلک اسکول پشاور
طاہرہ قاضی نے انیس سو پچانوے بطور ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ انگلش آرمی پبلک اسکول میں عظیم مقصد کا آغاز کیا، دو ہزار چھ میں وہ اسکول کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال بچوں کو شعور دینے میں صرف کئے اور آخر کار اسی مقصد کیلئے اپنی جان قربان کی۔حملے میں زخمی ہونے والے ایک بچے نے بتایا کہ میڈم طاہرہ کے آخری الفاظ ’یہ میرے بچے اور میں ان کی ماں ہوں‘تھے۔
مقامی افراد کے مطابق فوجی کمانڈوز آپریشن کے دوران انہیں دہشت گردوں کے شکنجے سے بحفاظت باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن وہ یہ کہہ کر دوبارہ اسکول میں واپس چلی گئیں کہ میں اپنے اسکول کے بچوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔
جس کے نتیجے میں درندہ صفت دہشت گردوں نے بے رحمی، سفاکی، بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں زندہ جلا دیا۔رات گئے تک ان کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں آیا زندہ ہیں یا انہیں بھی دہشت گردوں نے شہید کر دیا؟
کافی تلاش کے بعد جب اسکول میں پڑی ہوئی لاشوں کو دیکھا گیا تو ان میں ایک لاش طاہرہ قاضی کی بھی تھی جن کی شناخت بھی نہیں ہو پا رہی تھی کیونکہ جلنے سے ان کی لاش مسخ ہو چکی تھی، ان کے لواحقین نے ان کے زیورات سے انہیں پہچانا۔
طاہرہ قاضی نے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو کر پوری قوم کو یہ سبق دیا کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی بھی مشکل آئے ہمیشہ اپنے فرض کو مقدم رکھا جائے۔