تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

نقش و نگاری اور مصوّری میں‌ مسلم دنیا کا امتیاز

مسلمانوں کے ابتدائی دور میں خلفائے بنو امّیہ کے زمانے میں فتوحات سے اسلامی سلطنت میں توسیع ہوئی۔ اس وقت خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ساسانی اور بازنطینی پر اپنا سکہ جاری کیا، جس پر اس کی تصویر تھی، جو اس وقت مصلحتاً ضروری سمجھا گیا تھا۔

بقول ابنِ سعد صاحب طبقاتِ قاضی شریع کی مہر پر دو شعر اور بیچ میں درخت منقش تھے۔ اس ابتدائی دور میں محض جمالیاتی طور پر فرحت اور مسرت حاصل کرنے کے لیے کپڑوں اور ظروف پر کئی قسم کے رنگوں سے نقاشی کی جاتی تھی۔ اس زمانہ کی نقاشی کے مطالعہ سے ہم آج اس زمانہ کے تمدن اور اطوارِ زندگی کا پتہ لگاتے ہیں۔

مسلمانوں نے ان مصوّر اشیاء کی جمالیاتی خصوصیات کے لحاظ سے ان کے نام بھی وضع کیے۔ یعنی مرط مرحل اس چادر کو کہا جاتا تھا، جس پر مجمل اور آدمیوں کی تصاویر ہوں۔ شجراف و سجلاط وغیرہ ان چادروں کو کہا جاتا تھا، جن پر درختوں اور زیورات کی تصاویر ہوں۔ محلات کے نام بھی اس کی جمالیاتی کیفیات اور نقاشی کے اعتبار سے رکھے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے شہر فزدین میں جب ابتدائی دور میں اوّل مسجد بنائی تو اس کے لیے ایسے ستون استعمال کیے جن کے سروں پر بیلوں کے نقوش تھے۔ اس کی جمالیاتی خصوصیت کی وجہ سے اس کا نام مسجدِ ثور یعنی بیلوں والی مسجد رکھ دیا تھا۔

مسلمانوں نے ایسے حسین ماحول کے جمالیاتی اثرات کو پریشان دماغی کیفیات کاعلاج بھی تصور کیا ہے، جس کی اکثر تاریخی شہادتیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر حکیم بدرالدین قاضی بعلبکی نے اپنی کتاب مفرّحُ النّفس میں بیان کیا ہے کہ تمام اطبا حکما و فضلائے عصر کا اتفاق ہے کہ خوب صورت اور نازک صُوَر کے دیکھنے سے نفس کو ایک گونہ فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے اور ان سے امراض سوداویہ اور پریشان کن افکار دور ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشرقِ وسطیٰ میں جب حمام بنائے گئے تو ان کی دیواروں کو نازک تصویروں سے مصور کیا جاتا تھا۔ مثلاً ان حماموں کی دیواروں پر عشقیہ نظاروں، حسین تصویروں اور وحوش کے شکار کے مناظر ہوتے تھے۔

حکیم رازی نے لکھا ہے کہ مصوّر شکلوں میں تناسب اور مقدار کو ملحوظ رکھ کر دیدہ زیب رنگوں مثلاً سرخ، سبز، زرد اور سفید کے ساتھ مصور کیا جائے تو یقینی طور پر مفید ثابت ہوں گی اورتمام ہموم و غموم کو دور کریں گی اور خوشی کا سامان پیدا کریں گی۔ کیونکہ نفسِ انسانی اس قسم کے صورِ حسینہ کو دیکھ کر بہرہ اندوز ہوتا ہے۔

ہماری جمالیاتی تاریخِ مصوّری بہت دل چسپ ہے اور ہماری مصوّری ہماری ثقافت کا بہت اہم باب ہے۔ ہم یہاں مختصر طور پر مصوّری میں مسلمانوں کے بڑے بڑے کارنامے جمالیاتی طور پر بیان کرتے ہیں، جس کو عام طور پر یورپ میں آج مفتی انجینئر پنڈنگ کہا جاتا ہے۔

مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں تمام مشرقِ وسطیٰ، مشرقِ قریب اور وسط ایشیا کو فتح کرلیا تھا۔ مسلمانوں کی افواج کے امیر زیاد بن صالح نے جب سمرقند کو 58ء میں فتح کیا تو اس لڑائی کے قیدیوں میں کچھ چینی قیدی بھی ہاتھ آئے، ان میں سے بعض کاغذ بنانا بھی جانتے تھے، جن سے یوسف بن عمرو عرب نے کاغذ بنانا سیکھا، جسے مکّہ میں قرطاس سے تعبیر کیا گیا۔ اس وقت سے مسودات کو کاغذ پر لکھنا شروع کیا گیا۔

یہ ظاہر ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے سامنے قرآنِ کریم کی حفاظت جو ان کا جزوِ ایمان تھا اور محض اسے لکھا ہی نہیں گیا بلکہ اس کو مُزَیّب و منقش کیا گیا جو مسلمانوں کے جذبۂ مصوری کی بیّن شہادت ہے۔ چنانچہ ابنِ مریم نے جہاں ابتدائی رسماء الکتاب قرآنِ کریم کا ذکر کیا ہے، وہاں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو قرآنِ کریم کو زرفشاں کرتے تھے، جن میں سے ابراہیم الصغیر، ابوموسیٰ بن عمار القطنی، محمد بن محمد ابوعبداللہ الغزاعی وغیرہ کافی مشہور گزرے ہیں۔ ان میں سے اکثر حافظِ قرآن ہوتے تھے اور قرآن کو لکھنا سطلاً اور منقش اور مُذَہّب کرنا توشۂ آخرت تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہایت شوق اور دل و دماغ سے اس کام کو انجام دیتے تھے۔

مسلمانوں نے جمالیاتی اعتبار سے اس قسم کے نقش و نگار میں ایک خاص امتیاز پیدا کیا ہے جسے آج متفقہ طور پر یورپ میں ارابیک کہتے ہیں اور دنیائے مصوری میں ایک مسلّمہ جدت خیال کی جاتی ہے۔ اسی زمانے کے ذرا بعد وہ زمانہ آیا کہ جب مسلمانوں نے اپنی علمی کتابوں کو مزید مفید بنانے کے لیے ان کو مصوّر کرنے کی طرف توجہ کی، کیونکہ اس کے بغیر ان کی تفہیم کسی قدر مشکل تھی۔

اگرچہ تصویر کشی ایک غیراسلامی عمل ہے مگر محض اس کی ضرورت علمی میدان میں محسوس کر کے طب، جغرافیہ، قرآۃ، ریاضی، نجوم، جر ثقیل، موسیقی کی کتابوں کو تصنیف کیا گیا اور اس کے ساتھ ان کے مخطوطے اعلیٰ فنِ مصوری اور جلد سازی سے تیار کیے گئے، جو بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اگرچہ ہم اس عہد کی کسی کتاب کو، جو ان علوم سے تعلق رکھتی ہے، اٹھا کر دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس ابتدائی زمانے میں مسلمانوں نے اس فن کو کتنے عروج پر پہنچا دیا تھا اور ان مخطوطات کی افادیت ایک مسلّمہ کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ کتابوں کے مصوّر صفحات کا نظارہ ان کی جمالیاتی قدر و قیمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

(عالمی شہرت یافتہ پاکستانی مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے قلم سے)

Comments

- Advertisement -