تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

ایک دن میں دلّی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے مؤثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انہیں الفاظ اور اسی پیرائے میں دہرا دی جاتی تھی۔

یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا اور جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوب صورت تھا۔ مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کر دی تھی۔ یہ تو اس کی شکل تھی، رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بہ لفظ لکھی جائے۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے، یہ تھی:

"اے بھائی مسلمانو! خدا کے لیے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگتا ہوں، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا۔

بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں ۔ میرا کوئی دوست نہیں، اے خدا کے بندو! میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔”

فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر ان کے قصے کا اثر ہوا ان سے خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔

یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں ہوں اور وہ مفت خوری سے دن گزارتا ہے۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے، وہ جاہل ہے۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں، وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے۔ بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں۔ آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔

اس کی صحّت پر مجھے رشک کرنا چاہیے، میں رات دن اسی فکر میں گزار تا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابلِ رشک حالت کس وجہ سے ہے اور آخر کار میں بظاہر اس عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے۔

وہ حسرت سے کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ میں حسرت سے کہتا ہوں "میرے اتنے دوست ہیں، اس کا کوئی دوست نہیں۔” اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارک باد دینی چاہیے۔

(مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ، از سجاد حیدر یلدرم)

Comments

- Advertisement -