آصف الیاس کے اندر ذہین، شرارتی اور ہر میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کا آرزو مند بچّہ آج بھی کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔

فرق ہے تو بس اتنا کہ آصف کی توقعات، خواہشات اور آرزوؤں کا رُخ اب بچّوں کی جانب ہوگیا ہے۔ جب ہی تو انھوں‌ نے بچّوں کے حقوق سے متعلق کئی تھیٹر کیے۔ بطور آرٹسٹ بھی بچّوں کے رسائل کلیاں، گلوبل سائنس، نونہال اور ماہنامہ ہمدرد صحت کے لیے دس سال سے زائد عرصہ کام کیا۔ آرمی پبلک اسکول اور سندھ مدرسۃُ الاسلام میں بحیثیت آرٹ اینڈ ڈرامہ ٹیچر نہایت خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ معلم اور خطاط بھی ہیں۔ بچّوں کے لیے ان گنت کارٹون ڈب کیے۔ ریڈیو پاکستان کے تاریخی شو ”بچّوں کی دنیا“ سے بطور بھائی جان تیرہ برس سے وابستہ ہیں۔ پی ٹی وی کے لیے بچّوں کے متعدد شوز اور ڈرامے لکھے۔ ان دنوں پی ٹی وی پر آصف الیاس کا تحریر کردہ شو ”کریٹو کڈز“ نشر ہورہا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بچّوں کے لیے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی موسیقی بھی مرتب کی۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس عہد میں جب بچّے اور نوجوان کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، آصف الیاس صلہ نامی تنظیم کے تحت انھیں کتب بینی کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ نونہالانِ وطن کے معاملے میں آصف الیاس بے حد حسّاس اور ذمہ دار ہی نہیں، جوہری بھی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور انھیں نکھارنے میں ان کو کمال حاصل ہے۔ آصف الیاس ریڈیو اور ٹی وی کے توسط سے کئی باصلاحیت بچّوں کو متعارف کروا چکے ہیں۔ وہ کیڈٹ کالج میں بطور اسسٹنٹ لائبریرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم نے سوچا کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور انھیں مفید اور کارآمد سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے نہایت ذمہ داری سے اپنا کام کرنے والے آصف الیاس سے پوچھا جائے کہ خود ان کا بچپن کیسے گزرا؟ آصف الیاس کا انٹرویو پیشِ‌ خدمت ہے۔
آپ کا بچپن کیسا گُزرا؟
آصف الیاس: میرا بچپن الحمدُللہ بہت شان دار گزرا کیونکہ میں تین بہنوں سے چھوٹا اور دو بہنوں سے بڑا بھائی تھا تو بہنوں کا بھرپور پیار اور شفقت نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ ہم دوستوں کی طرح رہتے۔ ہر ایک کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی تو ہوتی ہے۔ غربت تھی لیکن سادگی تھی۔ امی کی بہت زیادہ سختی تھی، لیکن پیار بھی بہت زیادہ تھا۔ بہت اچھی تعلیم حاصل کی۔
بچپن میں شرارتی تھے یا صرف پڑھاکو تھے؟
آصف الیاس: میرا شمار انتہائی شرارتی بچّوں میں ہوتا تھا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس آواز کا ایک جادو ہے، تب میں نے نسوانی آواز بنا کر اپنے ایک رشتہ دار سے بات کی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی آنٹی ہیں، بعد میں ان کو پتہ چلا کہ یہ تو الیاس صاحب کے صاحبزادے ہیں تو اس پر پہلے تو ذرا برہم ہوئے اور پھر چونکے بھی اور خوش بھی ہوئے تھے میری فن کاری پر۔
اسکول کے زمانے کا یادگار واقعہ؟
آصف الیاس: جماعت چہارم میں اپنی اوّلین سندھی تقریر میں پہلا انعام حاصل کرنا۔جس کی دھوم پورے اسکول میں مچی تھی، مجھے اعزازی کپ کے ساتھ پورے اسکول کا دورہ کروایا گیا تھا۔
تعلیمی میدان میں بچپن کی شان دار اور یادگار کام یابی کون سی تھی؟
آصف الیاس: تعلیمی میدان میں اوّل آتا رہا ہوں‌ اور تقریری مقابلوں میں انعام بھی حاصل کرتا رہا ہوں، یہ سب یادگار ہیں۔
کبھی کسی غیر یقینی ناکامی یا کام یابی کی صورت میں آپ کے کیا تأثرات تھے؟
آصف الیاس: دونوں صورتوں میں مزید محنت کرنے کا خیال آتا ہے۔
بچپن میں غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لیا؟
آصف الیاس: بچپن میں غیر نصابی سرگرمیاں، تقریر،اداکاری اور نقالی تھیں جو بچپن سے پچپن میں بھی جاری ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا انعام کب اور کس عمر میں حاصل کیا؟ یاد ہے انعام کیا تھا؟
آصف الیاس: سب سے پہلا انعام محلّے کے مدرسہ سے سات سال کی عمر میں نعت خوانی میں حاصل کیا اور نعتیہ کتاب کا ہدیہ ملا تھا۔
گرمیوں کی چُھٹیاں کیسے گزارتے تھے؟
آصف الیاس: اکثر حیدر آباد سے کزنز اور خالہ آجاتی تھیں۔ یوں اُن کی وجہ سے دعوتوں اور سیر سپاٹوں سے گرمیوں کی چھٹیاں مزے سے گزر جاتی تھیں۔
بچپن میں مشاغل کیا تھے؟
آصف الیاس: مصوری اور اداکاری۔ خیر سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
بچّوں کی کیسی کتابیں، رسائل اور کہانیاں پڑھنے میں لُطف آتا تھا؟
آصف الیاس: ہمدرد نونہال پڑھنے اور اس کے زمرۂ مصوری کو سب سے پہلے دیکھنے کا شوق تھا۔
بچپن میں آپ کی کون سی خوبی کو سب سے زیادہ سراہا جاتا تھا؟
آصف الیاس: گلوگاری کو بہت سراہا جاتا تھا۔
کوئی ایسی ڈانٹ یا مار جس کا اثر آج بھی آپ کی زندگی پر ہے؟
آصف الیاس: نماز کی پابندی۔ امی نماز کا پابند بنانے کے لیے اپنے اس اکلوتے بیٹے پر بہت سختی کرتی تھیں۔
بچپن میں احتجاج کا کون سا طریقہ اختیار کرتے تھے؟
آصف الیاس: مجال ہے کہ کوئی احتجاج کر لیں۔ امی کی آنکھیں، باتیں، آواز، ہاتھ سارے احتجاج ایک طرف کر دیتی تھیں۔
بچپن میں عیدی کتنی ملتی تھی؟ کیسے خرچ کرتے تھے؟
آصف الیاس:‌ عیدی جتنی بھی ملتی امی کے ذاتی اکاؤنٹ یعنی پرس میں منتقل ہو جاتی تھی۔ اس لیے خرچ کا نہ خیال آتا تھا، نہ ہی سوال پیدا ہوتا تھا
بچپن میں کس سے متأثر تھے، کیوں؟
آصف الیاس:‌ بچپن میں اساتذہ اور فوج کے سپاہیوں سے متأثر تھا۔ میں فوجی بننا چاہتا تھا یا اُستاد۔
بچپن میں کسی لائبریری کے ممبر تھے؟ یومیہ کتنا کرایہ تھا؟ کیا سہولتیں تھیں؟
آصف الیاس:‌ بچپن میں کیا کسی بھی عمر میں، میں لائبریری کا ممبر نہیں رہا۔ ہاں لائبریری سائنس کا طالب علم ضرور رہا ہوں۔ گو کہ میں نے مختلف لائبریریوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اور اب بھی بطور اسسٹنٹ لائبریرین کام کر رہا ہوں۔
حکیم سعید صاحب سے بچپن کی یادگار ملاقات کے بارے میں‌ بتائیں۔
آصف الیاس:‌ جب میں نے ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر کے پروگرام بچّوں کی دنیا سے اپنی صداکاری کا آغاز کیا تو مجھے پتہ چلا حکیم سعید صاحب بچّوں کی دنیا میں آتے ہیں۔ مجھے بڑی بے چینی سے ان کا انتظار تھا۔ جب وہ پروگرام میں آئے تو اُن کے احترام میں منی باجی کھڑی ہو گئیں۔ ہم بچّے کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نونہال باقاعدگی سے خریدتا تھا۔ نونہال کے خاص نمبر کے ساتھ ایک آٹو گراف بک بھی ملی تھی جو میں بچّوں کی دنیا میں لے کر جاتا تھا۔ میں نے حکیم صاحب سے اس پر آٹو گراف لیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا بچپن کی سرسری سی ملاقات کے بعد حکیم صاحب کی ہمدرد نونہال اسمبلی میں شرکت کروں گا۔ حکیم صاحب سے اپنے لیے تعریفی کلمات سنوں گا اور اُن کے صحبت سے فیض یاب ہوں گا۔ میں نے ہمدرد نونہال اسمبلی میں لگاتار تین سال تھیٹر کیا بلکہ میرے تھیٹر کا آغاز ہی ہمدرد کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا۔ میں نے اُن کے میگزین کے لیے بطور مصوّر خدمات انجام دیں۔
بچپن میں مستقبل کے جو خواب دیکھے تھے وہ پُورے ہوئے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا پڑا؟
آصف الیاس:‌ میں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا لیکن اللہ نے میرے ہر خیال کو تعبیر بخشی ہے۔ جس کا اثر میری زندگی پر یہ ہے کہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔
عہدِ حاضر کے بچّوں کا بچپن ملتا تو اسے اپنے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے کیسے گزارتے؟
آصف الیاس:‌ شکر ہے میرا بچپن اس دور کا نہیں ورنہ میں بھی واٹس ایپ اور وڈیو گیم والا بچّہ ہوتا، تاہم اگر طبیعت اور مزاج کی بات ہو تو میں ریڈیو اور ٹی وی سے پہلے یوٹیوب اسٹار ہوتا۔
بچّوں کو کیا کہنا چاہیں‌ گے؟
آصف الیاس:‌ مجھے اس دور کے بچّوں پر فخر ہے اور بچّوں کی دنیا سے پیار ہے۔

Comments