تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

مجازؔ، رومانویت کا شہید

مجازؔ نوجوانوں میں صرف مقبول نہیں، بلکہ ان کے محبوب شاعر تھے۔

کالج کے لڑکے اور لڑکیاں مجازؔ کی نظموں کو یاد کر کے ان کے اشعار والہانہ جوش اور سرمستی کے عالم میں پڑھتے تھے۔ اسرارُ‌ الحق مجاز کی بات کی جائے تو وہ پرستارِ حسن بھی تھے اور لیلائے انقلاب کے دیوانے بھی۔ معاملاتِ حسن و عشق کا بیان ہو یا روایت سے نفرت کا اظہار، مجاز نے انفرادیت کا ثبوت دیا اور بلاشبہ جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم شعرا کو نصیب ہوئی۔ شراب نے مجازؔ کو کہیں‌ کا نہ چھوڑا۔ وہ رندِ‌ بلانوش تھے۔ مجاز نے لکھنؤ میں‌ 1955ء میں اپنی زندگی تمام کی۔ یہاں ہم آل احمد سرورؔ کے مضمون سے دو واقعات اس شاعرِ بے بدل سے متعلق نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ سرورؔ جدید اردو تنقید کا اہم ترین نام ہیں، وہ شاعر بھی تھے۔ سرورؔ کی مجاز سے ملاقاتیں رہیں جن کا تذکرہ انھوں نے اپنے مضامین میں کیا ہے۔

سرورؔ لکھتے ہیں:
جولائی 1955ء میں ریڈیو سری نگر کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے میں بھی گیا اور مجازؔ بھی۔ دوستوں نے مجاز ؔکی اس طرح دیکھ بھال کی جیسے کسی بہت قیمتی اور نازک چیز کی۔ ہم لوگ انہیں گلمرگ اور سری نگر کے شاہی باغ دکھانے لے گئے تھے۔ ان پر کسی چیز کا اثر نہ ہوتا تھا۔ نشاط اور شالامار میں بکثرت فوارے ہیں۔ ان فواروں میں پانی اتنے زور سے چلتا ہے اگر کوئی لیموں فوارے کے منہ پر دیا جائے تو کچھ دیر کے لئے پانی کی زد سے ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ ایک دوست یہ کھیل کر رہے تھے کہ ایک پنجابی عورت(جو سیر کی غرض سے وہاں آئی تھی) نے کہا، ’’اللہ دی قدرت ہے!‘‘ مجاز کو اس جملے نے بہت محظوظ کیا۔ شالامار اور نشاط کے تأثرات کا حاصل مجازؔ کے نزدیک یہ لطیفہ تھا۔

ایک اور واقعہ سرورؔ نے کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
ایک دفعہ مجازؔ اور جذبیؔ لکھنؤ میں میرے (آل احمد سرور) پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دور کے ایک مشہور شاعر ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ سرورؔ صاحب! سوچتا ہوں شادی کر لوں۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں انہیں شادی شدہ سمجھتا تھا۔ پھر کہنے لگے اور سوچتا ہوں کسی بیوہ سے کروں۔ اب تک یہ باتیں صرف میں سن رہا تھا کیونکہ مجازؔ اور جذبیؔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایسی مزے دار گفتگو میں دوسرے شریک نہ ہوں، چنانچہ میں نے مجازؔ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ صاحب شادی کرنے والے ہیں اور کسی بیوہ سے شادی کرنے کا خیال ہے۔‘‘ مجاز نے بے ساختہ کہا، ’’حضرت آپ سوچیے نہیں کر ہی لیجیے بیوہ تو آپ سے شادی کے بعد وہ ہو ہی جائے گی۔‘‘

Comments

- Advertisement -