تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

اطہر نفیس: معروف شاعر جو خوابوں کا صورت گر تھا

پاکستان کی معروف گلوکارہ فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا سفر 60 کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ اس گلوکارہ کی آواز میں اطہر نفیس کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

آج اطہر نفیس کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1980ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ اطہر نفیس کا شمار اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شعرا میں‌ کیا جاتا ہے جن کی یہ غزل ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اکثر نشر کی جاتی تھی اور ہر بار سامعین اس غزل کو سننے کی فرمائش کرتے۔

اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی اور روزگار کے اس سلسلے کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔ صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔

اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب کے باعث ہم عصر شعرا میں الگ پہچان بنائی اور شاعری میں اپنے تخلیقی وفور کے ساتھ دل کش پیرایۂ اظہار کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو غزل کو خیال آفریں موضوعات کے ساتھ دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کا مجموعۂ کلام 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔

اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

اطہر نفیس کی وہ غزل ملاحظہ کیجیے جسے فریدہ خانم کے بعد دوسرے پاکستانی گلوکاروں نے بھی گایا۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

Comments

- Advertisement -