تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

بالبک اور جوپیٹر کے چھے ستون

لبنان کے دس ہزار سال قدیم شہر بالبک کو ’سورج کا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں رومن سلطنت، تہذیب اور اس دور آثار بکھرے پڑے ہیں۔

بالبک شہر کے قدیم آثار کو اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنے ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہاں ہم اسی قدیم اور تاریخی اہمیت کے حامل شہر کے بارے میں مختصر معلومات نقل کررہے ہیں جو تاریخ کے طالبِ‌ علموں، اور دلدادگانِ‌ سیاحت کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔

محققین کا خیال ہے کہ بالبک کو یہ نام اس شخص کی وجہ سے دیا گیا تھا جو یہاں وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی زمین کا مالک تھا۔ اس کا نام بالی بتایا جاتا ہے اور یہ شہر اسی کے نام سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ابتدائی تہذیبوں کے دور سے ہی یہ خطّہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ محققین کے مطابق روم کے مشہور سیاست داں اور جنرل مارک انطونی (Mark Antony) کو اس شہر سے خاص نسبت رہی اور وہی تھا جس نے بالبک قلوپطرہ کو سونپ دیا تھا۔ قلوپطرہ شاید اس عالمِ رنگ و بُو کا وہ کردار جس کی افسانوی حیثیت تاقیامت برقرار رہے گی۔ بالبک اِسی قلوپطرہ کے زیرِنگیں اُس وقت تک رہا جب تک وہ آگسٹس سیزر سے شکست نہیں کھا گئی۔ بعد میں اور کئی صدیوں کے دوران بالبک کو حملہ آوروں نے اپنے قبضہ اور اختیار میں رکھا۔ اور یہاں اپنے سے پہلے آنے والوں کا نقشِ تہذیب اور اس کی شناخت مٹانے کی غرض سے اہم عمارتوں‌ اور آبادیوں کو نشانہ بنایا اور ہر طرح برباد کیا۔ اس کے معبد اور محلّات کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا رہا۔ تھیوڈوسیئس نے یہاں آگسٹس کے دور کے عظیم معبد کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا۔ ساراسن نے صلیبی جنگوں کے دوران اسے شہر کی حفاظت کرنے والے ایک قلعے میں تبدیل کر دیا تھا۔

انیسویں صدی میں‌ یہاں لبنان کے ترکی حکم رانوں کے اتحادی جرمنوں نے عبادت خانوں کی کھدائی کی۔ یہ سلسلہ 1899ء میں‌ شروع ہوا تھا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد لبنان پر جب فرانس کا تسلط قائم ہوا تب فرانسیسی ماہرینِ‌‌ آثارِ‌ قدیمہ نے بھی کھدائی کا کام جاری رکھا اور مابعد لبنانیوں نے بھی قدیم دور کے آثار تک پہنچنے کے لیے کھدائی کا کام جاری رکھا۔

بالبک کی تیسری صدی بعد از مسیح میں تعمیر کردہ عبادت گاہ کے 84 ستونوں میں سے آج صرف چھ ستون سلامت ہیں جن کو آج بھی سیاح بہت اشتیاق سے دیکھنے آتے ہیں۔ اسے جوپیٹر کہا جاتا ہے۔ بالبک میں کھدائی اور قدیم دور کی بازیافت کو اہمیت دیتے ہوئے رومن عہد کی مشرقی سلطنت سے متعلق ماہرین نے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔

Comments

- Advertisement -
  • ٹیگز
  • -