خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کی آج 127 ویں سالگرہ ہے‘ آپ 20 جنوری 1988 کو 97 سال کی عمرمیں پشاور میں انتقال کرگئے تھے‘ آپ لہ زندگی عدم تشدد کے فلسفے سے مزین تھی‘ آپ پختونوں کے سیاسی رہنما کہ طور پربھی جانے جاتے تھے۔
باچا خان چھ فروری 1890 کو پشاور کے علاقے عثمان زئی میں پیدا ہوئے تھے۔، آپ نے برطانوی دورمیں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا، آپ کے مداحوں میں آپ کو باچا خان اورسرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے۔
آپ پہلے اپنے خاندان کے افراد کے دباؤ پر برطانوی فوج میں شامل ہوئے، لیکن ایک برطانوی افسر کے ناروا رویے اور نسل پرستی کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑدی۔ بعد میں انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ اپنی والدہ کے کہنے پرموخر کیا۔
برطانوی راج کے خلاف کئی بار جب تحاریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو خان عبدالغفار خان نے عمرانی تحریک چلانے اورپختون قبائل میں اصلاحات کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا۔
اس سوچ نے انہیں جنوبی ایشیاء کی ایک نہایت قابل ذکرتحریک خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا۔ اس تحریک کی کامیابی کے سبب انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا۔
جنوبی ایشیاء کی آزادی کے بعد خان عبدالغفار خان کو امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کا درمیانی عرصہ خان عبدالغفار خان نے جیلوں اور جلاوطنی میں گزارا۔ 1987ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود “بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے۔
سن 1988ء میں آپ کا انتقال ہوا، اور آپ کو وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا۔ افغانستان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع پردونوں اطراف سے جنگ بندی کا فیصلہ آپ کی شخصیت کے علاقائی اثر رسوخ کو ظاہر کرتی ہے۔
0
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس عظیم فلسفی اورسیاست داں کی برسی کے موقع پر گزشتہ سال چارسدہ میں ان کے نام سے منسوب باچا خان یونی ورسٹی کو دہشت گردوں نے ظلم اور بربریت سے بھرپور حملے کا نشانہ بنایا تھا جس میں ایک پروفیسر پروفیسرسمیت 22 افراد شہید ہوئے تھے جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
ذیل میں ہم خان عبدالغفارخان کے کچھ ایسے اقوال آپ کے ساتھ شیئر کررہے ہیں جن سے باچا خان کے فلسفے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
باچا خان کے 10 سنہرے اقوال
ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے ہم صبر سے کام لیں گے اورخود کو سپردِ خدا کریں گے، اپنے دلوں سے نفاق دور کریں گے، خود غرضی کو جڑ سے اکھاڑیں گے کیونکہ ہماری بربادی کی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔
اے میرے پختون بھائیو! خوف اور مایوسی کا شکار نہ ہونا۔ یہ خدا کی طرف سے ہماری آزمائش اور امتحان ہے پس بیداری کی ضرورت ہے۔ اٹھیے اورمخلوقِ خداکی خدمت پرکمربستہ ہوجائیے۔
آزادی کا پودا نوجوانوں کی قربانیوں سے سینچا جاتا ہے۔ یہ پودا جو ہم نے لگایا ہے ضرور پھلے اور پھولے گا کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں بے نظیر ہیں۔
اگرآپ نے کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھئے کہ اس قوم کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ اور سلوک کیسا ہے، جن لوگوں کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ ہتک آمیزہو وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔
ہماری جنگ عدم تشدد کی جنگ ہے اوراس راستے میں آنے والی تمام تکالیف اورمصائب ہمیں صبر سے جھیلنے ہوں گے۔
جو اقوام باتیں کم اورعمل زیادہ کرتی ہیں وہی اپنی منزل پاتی ہیں۔
سچا خدائی خدمت گاراسمبلی میں صرف مخلوقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت جاتا ہے۔
اس ملک پرعورتوں اورمردوں کا یکساں حق ہے۔
ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو اپنے اغراض کے لئے کام کرتے ہیں۔ جو لوگ خدا کی راہ میں نکلتے ہیں اور خدا کے لئے کام کرتے ہیں انہیں ناکامی کا غم نہیں ہوتا۔
ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اورمظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے۔ ہم اس قوم اورحکومت کی مخالفت کریں گے جو مخلوقِ خدا پر ظلم ڈھاتی ہو چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہمارا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔