ملتان : مدینۃ الاولیا حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمت اللہ علیہ کے سات سو ستترہواں سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات کا آغاز ہوگیا‘ ملک بھر سے زائرئن کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے سات سو ستترہویں سالانہ عرس کی باقاعدہ تقریبات کاآغازسجادہ نشین شاہ محمودقریشی نے مزارشریف کوغسل دےکرکیا ۔عرس میں شرکت کے لیے ملک بھر خصوصا اندرونِ سندھ سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
زائرین کی سہولت کے لیے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے خاطر خواہ انتظامات کیئے گئے ہیں۔ زائرین کے قیام و طعام کا بھی خاص بندوبست کیا گیا ہے جبکہ عرس کے ایام میں دربار اور اس سے ملحقہ علاقہ میں سیکورٹی ہائی الرٹ رہے گی۔ دوردراز سے آئے زائرین کی جانب سے ختم ِقران اور منت ومرادوں کا سلسلہ جاری ہے۔
حالاتِ زندگی
شیخ الاسلام بہاؤ الحق و الدین زکریا ملتانی سُہروردی علیہ الرحمۃ سلسلہ سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گزرے ہیں۔سلسلہ سہروردیہ کے صاحبِ کمال بزرگ جن کا پورا نام الشیخ الکبیر شیخ الاسلام بہاؤالدین ابو محمد زکریا القریشی الاسدی الہاشمی ہے۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ اور ولی تھے‘۔
آپ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ساتویں صدی ہجری کے مجددتسلیم کئے جاتے ہیں۔ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روزگار تھے ، اسلام کے عظیم مبلغ تھے. آپ کے جدِ امجد مکہ معظمہ سے پہلے خوارزم آئے ، پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ یہیں 578ھ میں پیدا ہوئے،نصب سےقریشی ہیں۔
آپ چھوٹی ہی عمر میں یتیم ہو گئے۔ بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا پھر بخارا میں تحصیلِ علم کی۔ بعد ازاں حرمین شریفین پہنچے، حج و زیارت سے فارغ ہو کر بیت المقدس میں بھی علم حاصل کیا اور علم حدیث کی خاطر یمن بھی گئے۔ والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ نے محض حصول علم و فن کیلئے پیادہ پا خراسان کا سفر کیا۔
اس کے بعد بلخ، بخارا ،بغداد اور مدینہ منورہ کے شہرہ آفاق مدارس میں رہ کر تعلیم حاصل کی۔ پانچ سال تک مدینہ منورہ میں رہے جہاں حدیث پڑھی بھی اور پڑھائی بھی۔ غرض پندرہ سال اسلام کے مشہور مدارس و جامعات میں رہ کر معقولات و منقولات کی تکمیل کی۔ مدینہ منورہ ہی میں حضرت کمال الدین محمد یمنی محدث رحمة اللہ علیہ سے احادیث کی تصحیح کرتے رہے۔ جب پورا تجربہ حاصل ہو گیا تو آپ مکہ معظمہ حاضر ہوئے اور یہاںسے بیت المقدس پہنچ کر انبیاءکرام علیہم السلام کے مزارات کی زیارات کیں۔ اس عرصہ میں آپ نہ صرف علوم ظاہر کی تکمیل میں مصروف رہے بلکہ بڑے بڑے بزرگان دین اور کاملین علوم باطنی کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ بڑے بڑے مشائخ سے ملے۔ 15 سال کی عمر میں حفظِ قرآن ، حسنِ قرأت، علومِ عقلیہ و نقلیہ اور ظاہری و باطنی علوم سے مرصع ہوگئے تھے ۔
آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کیلئے خراسان ، بخارا ، یمن، مدینة المنورة ، مکة المکرمة ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔
شیخ طریقت کی تلاش میں آپ ، اپنے معاصرین حضرت ِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکر، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاری (مخدوم جہانیاں جہاں گشت) اور حضرت سید عثمان لعل شہباز قلندر کے ساتھ سفر کرتے رہے۔
یمن سے آپ بغداد تشریف لائے اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی خانقاہ پہنچے۔ آپ نے صرف 17 دنوں میں بیعت و خلافت عطا فرما دی۔ بیت المقدس سے مختلف بلاد مشائخ اور مزارات کی زیارت کرتے ہوئے مدینۃ العلم بغداد میں آئے تو اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی ذات گرامی مرجع خلائق بنی ہوئی تھی۔ بڑا دربار تھا ‘ بڑا تقدس ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہی فرمایا باز سفید آگیا۔ جو میرے سلسلہ کا آفتاب ہو گا اور جس سے میرا سلسلہ بیعت وسعت پزیر ہوگا۔ آپ نے ادب سے گردن جھکائی۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی روز حلقہ ارادت میں لے لیا اور تمام توجہات آپ کی طرف مرکوز تھیں۔
15سال تک مختلف علاقوں میں تبلیغ اسلام کرتے آخر کار 1222ء میں واپس ملتان تشریف لائے۔ آپ کی مساعی جمیلہ سے سہروردی سلسلہ پاک و ہند میں خوب جاری ہوا۔
ملتان میں ہی آپ کا وصال ہوا اور اسی شہر میں آپ کا مزار پُر انوار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ مزار بہاؤالدین زکریا ملتانی فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔آپ کی وفات ِحسرت آیات 7 صفر 661 ھ/21دسمبر 1261ء کو ہوئی۔ آپ کا مزار شریف قلعہ محمد بن قاسم کے آخر میں مرجع خلائق ہے۔