جمعرات, جولائی 4, 2024
اشتہار

کن ممالک میں سرسوں کے تیل پر کھانا پکانے پر پابندی اور کیوں؟

اشتہار

حیرت انگیز

ماہرین سرسوں کے تیل کو غذائیت اور صحت سے بھرپور قرار دیتے ہیں لیکن دنیا کے کچھ ملکوں میں اس تیل میں کھانا پکانے پر پابندی عائد ہے۔

سرسوں کے تیل کو غذائیت سے بھرپور اور صحت کے لیے مفید مانا جاتا ہے اور بالخصوص برصغیر پاک وہند میں تو یہ صدیوں سے کھانا پکانے میں استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ آج جب کہ کئی اقسام کے تیل مارکیٹ میں دستیاب ہیں مگر بیشتر گھروں میں سرسوں کا تیل ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم امریکا اور بعض یورپی ممالک میں اس تیل میں کھانا پکانے پر پابندی ہے اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کھانے کے لیے منظور شدہ اشیا کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔

- Advertisement -

غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا کے دیسی اسٹورز پر یہ تیل بآسانی دستیاب تو ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اس پر ہدایت بھی درج ہوتی ہے کہ اسے کھانا پکانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ سرسوں کا تیل امریکا میں اس لیے منظور شدہ نہیں کیونکہ اس میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد اس کے استعمال سے دل، پھیپھڑوں اور جلد کے مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

اس کی وجہ ماہرین غذائیت یہ بتاتے ہیں کہ سرسوں کے تیل کو امریکا میں اس لیے منظور نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

یورک ایسڈ جو ایک مونو سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ ہے اور جانوروں پر کی گئی تحقیق میں ان کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔

تاہم یہ تحقیق انسانی صحت پر یورک ایسڈ کے اثرات کی واضح تصویر پیش نہیں کرتی۔ چنانچہ کچھ ماہر غذائیت کی رائے ہے کہ اس تحقیق پر اندھا اعتبار کرنا ٹھیک نہیں کیوں کہ تحقیق کے معیار کو معاشی مفادات متاثر کرسکتے ہیں۔

اسی لیے امریکا میں دستیاب سروسوں کے تیل کو بہت سے گھرانے کھانا پکانے کے لیے بلا جھجھک استعمال کرتے ہیں۔

ماہر غذائیت اشون بہادری بتاتے ہیں کہ اگرچہ یورک ایسڈ کی تھوڑی مقدار محفوظ ہے لیکن طویل عرصے تک اس کی زیادہ مقدار نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں