تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

یورپی ملک بلغاریہ کی بنیا باشی مسجد جو سلطنتِ عثمانیہ کی یادگار ہے

بلغاریہ کبھی سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں‌ اور جنوب مشرقی یورپ میں خطّۂ بلقان کا حصّہ تھا۔ آج یہ جمہوریہ بلغاریہ کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود ملک ہے جس کا دارُالحکومت صوفیہ ہے۔

بلغاریہ کی سرحدیں شمال میں رومانیہ، مغرب میں سربیا، مقدونیہ اور جنوب میں یونان اور ترکی سے ملتی ہیں۔

عثمانی سلاطین نے اپنے دور میں‌ یہاں کئی محلّات، پُل، سرائے، گزرگاہیں اور دیگر تعمیرات کروائی تھیں جو ترک طرزِ تعمیر کا شاہ کار اور اس دور کی خوب صورت یادگار ہیں۔ اسی زمانے میں بلغاریہ میں‌ مساجد بھی تعمیر کی گئیں‌ جن میں سے ایک دارُالحکومت صوفیہ میں "بنیا باشی مسجد” (Banya Bashi Mosque) کے نام سے موجود ہے۔

خلافتِ‌ عثمانیہ کے زوال اور خطّے میں آزاد ریاستوں کے قیام کے بعد یہاں اس دور کی مساجد اور دیگر عمارتوں کی حیثیت یا تو تبدیل کردی گئی یا ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا، لیکن صوفیہ کی یہ واحد قدیم مسجد آج بھی قائم ہے اور اس کی مذہبی حیثیت بھی برقرار ہے۔

بنیا باشی کو یورپ کی قدیم مساجد میں شمار کیا جاتا ہے جو 1576ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس وقت صوفیہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ تھا۔ بلغاریہ پر لگ بھگ پانچ صدیوں تک عثمانی سلاطین نے حکم رانی کی تھی۔

صوفیہ کی اس مسجد کا نقشہ اور ڈیزائن عثمانی دور کے مشہور اور ماہر معمار سنان پاشا کا بنایا ہوا تھا۔ بنیا باشی مسجد کا منفرد طرزِ تعمیر اپنی جگہ لیکن اس کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اسے قدرتی گرم چشموں کے اوپر بنایا گیا تھا۔

اس مسجد کا وسیع گنبد اور بلند مینار اسے اپنے طرزِ‌ تعمیر میں‌ منفرد بناتے ہیں اور یہی اس کی شہرت کا باعث بھی ہے۔

اس مسجد کے معمار سنان پاشا اناطولیہ کے ایک عیسائی جوڑے کے گھر پیدا ہوئے تھے، جنھوں‌ نے بعد میں استنبول ہجرت کی اور یہاں اسلام قبول کیا۔ انھوں نے مختلف ترک حکم رانوں کا دور دیکھا اور ان کے حکم پر ترکی اور سلطنتِ‌ عثمانیہ کے زیرِ‌نگیں مختلف علاقوں میں‌ بطور ماہر معمار خدمات انجام دیں۔

بلغاریہ میں‌ چند دہائیوں قبل تک مسلمانوں نے مذہبی بنیادوں‌ پر کئی پابندیوں‌ کا سامنا کیا اور ان کے مذہبی تشخص کو خطرہ رہا، لیکن اب شہروں اور دیہات میں‌ مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور مسلمان اقلیتی حقوق کے تحت اپنے اخبار و رسائل کی اشاعت اور ان کے اجرا کی اجازت رکھتے ہیں۔

بلغاریہ میں عثمانی عہد کی یادگار بنیا باشی مسجد کے تذکرے کے ساتھ اگر ہم بلقان اور اس خطّے کی تاریخ کو جاننے کی کوشش کریں‌ تو معلوم ہو گا کہ ‘بلقان’ ترکی زبان کا لفظ ہے۔ یہ لفظ پہاڑیوں کے معنیٰ‌ میں‌ استعمال ہوتا ہے۔ اس علاقے کو ترک وراثت کا حصّہ کہا جاسکتا ہے۔

چودھویں صدی عیسوی تک یہاں‌ ہنگری کے بادشاہ کا راج تھا۔ ترک فوجوں نے خطۂ بلقان کے اس حکم راں کو شکست دے کر 1463ء میں بوسنیا کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا اور یوں‌ یہاں اسلامی دور کا آغاز ہوا۔

یورپی مؤرخین بھی تسلیم کرتے ہیں‌ کہ اس خطّے میں‌ ترکوں کی حکم رانی کے بعد علم و ادب کو فروغ ملا اور یہاں‌ مدارس اور جامعات قائم کی گئیں۔ ترکوں نے اس خطّے میں مذہبی رواداری کو بھی فروغ دیا۔ انھوں‌ نے یہاں مساجد ہی نہیں‌ تعمیر کروائیں‌ بلکہ یتیم خانے، لائبریریاں اور مختلف عالی شان عمارتیں بھی بنوائیں‌ جو ترک طرزِ‌ تعمیر کا شاہ کار ہیں۔

سلطنتِ عثمانیہ کے کم زور پڑنے کے بعد 1878ء میں خطۂ بلقان سے ترکوں کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔

Comments

- Advertisement -