اتوار, جون 9, 2024
اشتہار

آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

اشتہار

حیرت انگیز

دنیائے فانی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں تاریخ بناتی ہے اور کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہا جاتا ہے۔ بے شک مولانا آزاد ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔

ایک روز میں اور جوش صاحب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جوش صاحب کو کچھ کام تھا لیکن میں یوں ہی ساتھ ہو لیا۔ مولانا ملاقاتیوں میں گھرے ہوئے تھے، جب کچھ دیر رکنے کے بعد بھی ہماری باریابی نہ ہوسکی تو جوش صاحب کہنے لگے، بھئی ہم تو اب چلتے ہیں۔ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مولانا نے تو آپ کو نہیں وقت دیا، آپ خود ہی تشریف لائے ہیں، ذرا اور انتظار کیجیے۔ جوش صاحب ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ حساس تھے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی یہ شعر لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا اور چل پڑے:

نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا

- Advertisement -

ابھی ہم دس بیس قدم ہی گئے ہوں گے کہ اجمل خاں ہانپتے ہانپتے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ مولانا کو تو آپ کے آنے کا علم ہی اب ہوا ہے، آپ آئیے مولانا یاد فرمارہے ہیں۔ چنانچہ ہم لوٹ آئے اور مولانا نے ہمیں بلا لیا اور معذرت کی کہ ہمیں انتظار کرنا پڑا۔

فرمانے لگے کہ تمام وقت سیاسی لوگوں کی صحبت میں گزر جاتا ہے، جی بہت چاہتا ہے کہ کبھی کبھار علمی صحبت بھی میسر ہوتی رہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو چار دس دن میں کبھی تشریف لے آیا کریں تو کچھ راحت ملے۔ جوش صاحب نے وعدہ فرما لیا، میں تو چونکہ جوش صاحب کے ساتھ تھا، مولانا نے مجھے بھی یہ دعوت دی حالانکہ ان دونوں حضرت کے سامنے میری حیثیت ایک طفلِ مکتب کی بھی نہیں تھی۔

اسی سلسلے میں ہم ایک شام آٹھ بجے کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اجمل خاں آئے اور کہنے لگے کہ مولانا پنڈت جواہر لال نہرو جی کا فون آیا ہے، کسی ضروری مشورے کے لئے آپ کے پاس آرہے ہیں۔ یہ سن کر مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو فون کر دو کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوں۔ میں نے اور جوش صاحب نے لاکھ کہا کہ ہمارا تو کوئی خاص کام تھا ہی نہیں، یوں ہی چلے آئے تھے، آپ ہماری وجہ سے پنڈت جی کو نہ روکیں، لیکن مولانا نہیں مانے۔ اتنے میں پھر اجمل خاں آگئے اور کہنے لگے کہ پنڈت تو گھر سے چل پڑے ہیں اور دو چار منٹ میں آتے ہی ہوں گے۔ ہم نے پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن مولانا نہیں مانے، اتنے میں پنڈت جی آگئے تو مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دو۔ اس کے بعد بھی مولانا نے پانچ سات منٹ ہم لوگوں کے ساتھ گزارے، لیکن جب انہیں احساس ہوگیا کہ ہمیں سخت کوفت ہورہی ہے تو فرمانے لگے آپ ابھی جائیے نہیں، میں پنڈت جی سے بات کر کے آتا ہوں۔ چنانچہ دس بیس منٹ کے بعد مولانا تشریف لائے اور آدھ پون گھنٹہ ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے، اس واقعے کا ذکر کرنے سے مولانا کی عظمت، خود داری، مہمان نوازی اور وقار کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ کتنے آدمی ایسے ہوں گے جو پنڈت جی کو آنے سے روک دیتے؟

جوش صاحب اردو شاعری کے بادشاہ تھے۔ جتنا ذخیرۂ الفاظ ان کے پاس تھا شاید کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو، لیکن صرف دو ایسی ہستیاں تھیں جن کے سامنے جوش صاحب خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھتے اور وہ تھے مولانا آزاد اور مولانا عبدالسّلام نیازی۔ ایک روز میں نے جوش صاحب سے پوچھا کہ جب کبھی آپ مولانا آزاد یا مولانا عبدالسّلام نیازی سے ملتے ہیں تو اکثر خاموش ہی رہتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو جوش صاحب کہنے لگے کہ یہ دونوں حضرات اسی قدر پڑھے لکھے اور عالم ہیں کہ ان کے سامنے منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔

(اردو کے معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے مضمون سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں