اتوار, جون 16, 2024
اشتہار

ناسخ کا تذکرہ جو شاعری کو بھول گیا تھا!

اشتہار

حیرت انگیز

ذرا غور کیجیے، شیخ امام بخش ناسخ زندگی اور شاعری دونوں میں یتیم تھے۔ باپ کا نام خدا بخش تھا، وطن لاہور تھا۔ زمانے کی گردش نے با پ سے وطن چھڑوا دیا اور عالمِ غربت میں فیض آباد کا منھ دکھایا، جہاں ناسخ پیدا ہوئے۔

کہا جاتا ہے کہ ناسخ خدا بخش کے بیٹے بھی نہیں تھے بلکہ متنبی تھے۔ خدا بخش کے مرنے کے بعد بھائیوں نے دعویٰ کیا کہ امام بخش کوئی نہیں ہوتے اور خدا بخش کی کل دولت انھیں ملنی چاہیے۔ مگر ناسخ کی خود اعتماری دیکھیے کہ انھوں نے کہہ دیا مجھے مال و دولت سے کچھ غرض نہیں، جس طرح ان کو باپ سمجھتا تھا آپ کو سمجھتا ہوں، اتنا ہے کہ جس طرح وہ میری ضروریات کی خبر گیری کرتے تھے اسی طرح آپ فرمائیے۔ انھوں نے قبول کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جائیداد کے جھگڑے میں بد نیّت چچا نے بیسنی روٹی اور گھی میں ناسخ کو زہر دیا۔ لیکن یہ زہر کارگر نہ ہوا۔

کچھ پیش نہیں جاتی قسمت کے دھنی سے

- Advertisement -

عمر بھر کسی کی نوکری نہیں کی۔ پہلی دفعہ جب الہ آباد آئے، راجہ چندو لال نے بارہ ہزار روپے بھیج کر بلا بھیجا۔ انھوں نے لکھ بھیجا، اب جاؤں گا تو لکھنؤ ہی جاؤں گا۔ راجہ موصوف نے پھر خط لکھا بلکہ پندرہ ہزار روپے بھیج کر بڑے اصرار سے کہا کہ یہاں تشریف لائیے گا تو ملک الشعراء کا خطاب دلواؤں گا، حاضریٔ دربار کی قید نہ ہو گی، ملاقات آپ کی خوشی پر رہے گی۔ انھوں نے منظور نہ کیا۔

پھر سنیے کہ غازی الدین حیدر کے عہد میں جب ان کی تعریفوں کا آوازہ بہت بلند ہوا تو انھوں نے کہلوایا کہ اگر شیخ ناسخ ہمارے دربار میں آئیں اور قصیدہ سنائیں تو ہم انہیں ملک الشعراء خطاب دیں۔ جب یہ پیغام ان کے شاگرد نواب معتمد الدّولہ نے پہنچایا تو ناسخ نے بگڑ کر جواب دیا کہ مرزا سلیمان شکوہ بادشاہ ہو جائیں تو وہ خطاب دیں۔ اِن کا خطاب لے کر میں کیا کروں گا۔

غازی الدّین حیدر ذرا خطرناک آدمی تھے۔ ناسخ کو لکھنؤ چھوڑ کر غربت اختیار کرنی پڑی، لیکن غازی الدّین حیدر کے دربار میں نہ گئے اور ان کے لیے یا کسی کے لیے عمر بھر کوئی قصیدہ نہ کہا — حالانکہ کچھ نقادوں کو اس کی حسرت رہ گئی کہ ناسخ قصیدہ کی طرف مائل ہوتے۔

اردو شعراء پر جو سہل پسندی سے یہ حکم لگا دیا جاتا ہے کہ وہ لالچی، خوشامدی دربار پرست اور ثروت پرست ہوتے ہیں یا ہوتے تھے۔ وہ تصویر کا محض ایک رخ ہے اور وہ بھی سب سے زیادہ نظر فریب اور دلکش رخ نہیں ہے۔ مجھے تو اُردو شاعروں کی دنیا پرستی میں بھی ایک لطیف عنصر ملتا ہے۔

ناسخ کا دل کتنا بڑا تھا، اس کی ایک جھلک تو ہم آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ شاعری میں بھی کس انداز سے بے یار و مددگار شخص اپنی دھاک بٹھا کر رہا اور دہلی سے لکھنؤ تک بلکہ براعظم ہند کے اس تمام حصے پر چھا گیا جہاں ہندوستانی زبان بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ ناسخ کی شاعری کس طرح شروع ہوئی اس کا حال مصنفِ آبِ حیات (آزاد) سے سنیے:

شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے۔ روایت ہے کہ ایک بار ناسخ نے آغازِ شاعری کا حال یوں بیان فرمایا کہ میر تقی میر مرحوم ابھی زندہ تھے، جو مجھے ذوقِ سخن نے بے اختیار کیا۔ ایک دن نظر بچا کر کئی غزلیں خدمت میں لے گیا۔ انھوں نے اصلاح نہ دی میں دل شکستہ ہو کر چلا آیا اور کہا کہ میر صاحب بھی آخر آدمی ہیں فرشتہ تو نہیں۔ اپنے کام کو آپ ہی اصلاح دوں گا، چنانچہ عرصے کے بعد پھر فرصت میں نظرِ ثانی کرتا اور بناتا۔ غرض مشق کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ لیکن کسی کو سناتا نہ تھا۔ جب تک خوب اطمینان نہ ہوا مشاعرے میں غزل نہ پڑھی نہ کسی کو سنائی۔

مرزا حاجی صاحب کے مکان پر مشاعرہ ہونا تھا۔ سید انشاء، مرزا قتیل، جرأت، مصحفی وغیرہ سب شعراء جمع ہوتے تھے۔ سب کو سنتا تھا مگر وہاں کچھ نہ کہتا تھا۔ غرض سید انشاء اور مصحفی کے معرکے بھی ہو چکے۔جرأت اور ظہور اللہ خاں نوا کے ہنگامے بھی طے ہوگئے۔ جب زمانہ سارے ورق الٹ چکا اور میدان صاف ہو گیا تو میں نے غزل پڑھنی شروع کی۔’

اس میں شک نہیں کہ ناسخ پیدائشی لیڈر اور ڈکٹیٹر تھا۔ اس نے سختی سے تکمیل کے ساتھ اور جز رسی کے ساتھ اردو زبان کو منضبط اور منظم کیا اور ہمیشہ کے لیے زبان اور بیان کی بدنظمیوں کو مٹا دیا اور اس معنی میں کہ جتنا بڑا کلیسکس دیوانِ ناسخ ہے آج تک اردو کا کوئی اور دیوان نہیں ہو سکا، جس طرح آگسٹس نے روم کو اینٹ کا پایا اور اسے سنگ مرمر کا بنا کر چھوڑا، اسی طرح جہاں تک زبان و بیان اور شاعری کے خارجی اصولوں اور میونسپل قانونوں کا تعلق ہے، ناسخ نے اقلیمِ غزل کو ایک خودر و جنگل پایا اور اسے کم از کم ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے ایک وسیع البسيط باغ بنا کر چھوڑا۔ شاعرانہ حیثیت سے نہ سہی، لیکن تاریخی حیثیت سے یہ معمولی کارنامہ نہیں۔

لوگ یہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ دیوانِ ناسخ سے پہلے جو اردو دیوان مرتب ہوتے تھے۔ ان میں سب سے مشہور دیوانِ میر، دیوانِ سودا اور جرأت و مصحفی اور انشاء کے دیوان ہیں۔ ان دواوین کے مرتب ہونے کے پچاس برس کے اندر اندر دیوانِ ناسخ مرتب ہوا۔ لیکن مقابلہ کر کے دیکھیے تو دیوانِ ناسخ کی زبان اور ان کے بزرگ ہم عصروں کی زبان میں ایک صدی کیا شاید کئی صدیوں کا فرق نظر آئے گا۔

کہا جاتا ہے کہ جب پہلے پہل دیوان ناسخ کی کچھ جلدیں دہلی پہنچیں تو غالب، مومن ذوق اور دوسرے استادوں نے کہا کہ اب تک جو اندازِ بیان رائج تھا، اس کی آخری گھڑی آگئی۔ ہم سب کو اب اسی نئے رنگ میں کہنا ہے۔ شیفتہ ایسا اہلِ نظر ایسا مرعوب ہوا کہ بمقابلہ آتش کے ناسخ کے یہاں اسے زیادہ نشتر نظر آئے۔

بحیثیت ادبی ڈکٹیٹر کے تو ناسخ کا ثانی کوئی ہوا ہی نہیں۔ اور اب سو برس پہلے کے مغرور ہندوستان سے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے لکھنؤ سے کمزور ہستیوں کی گت بنا دینے والے لکھنؤ سے اپنا لوہا منوا لینا، جیسا میں کہہ چکا ہوں کہ بڑی ٹھوس شخصیت کا کام تھا۔ اب بحیثیت شاعر کے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے— کہ وہ نہایت ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

خیر یہ تو صحیح ہے کہ ناسخ نے غزل کو نہ غزل رکھا نہ قصیدہ رکھا بلکہ ایک معجون مرکب بنا دیا۔ لیکن اس کے اشعار کی بلند آہنگی انداز بیان کی تکمیل، بندش کی چستی، مصرعوں کا کس بل اور زور وہ چیزیں ہیں جو اس پہلوانِ سخن کے 1297 ڈنڈ کا اثر اس کی شاعری میں بھی نمایاں کر رہے ہیں۔ اس کے معنی اور مفہوم کو آپ سراسر تصنع کہیں، لیکن جہاں تک منضبط اسلوب بیان کا تعلق ہے، ناسخ کے احسان سے اور تو اور غالب، ذوق، مومن آتش اور ناسخ کے بعد کے اردو زبان کے تمام شعراء گراں بار ہیں۔

یہ بات ہمیشہ صیغہ راز میں رہے گی کہ غالب نے جو ایک بہت بڑا حصہ اپنے اردو دیوان کا منسوخ کر دیا—اس نظم و نسخ میں دیوانِ ناسخ کا بھی فیصلہ کن اثر پڑا تھا یا نہیں؟ لیکن مصحفی، انشاء، جرأت کی زبان تو دور رہی، کیا زبان کا جو اسلوب آج ہمارا جزوِ دماغ ہو چکا ہے وہ اسلوب، وہ اندازِ زبان غالب مومن اور ذوق کے مروجہ دواوین سے مرتب ہو سکتا ہے؟ غالباً نہیں۔ یہ تو ہوا زبان پر ناسخ کا عالمگیر اور مستقل اثر، اب رہی ناسخ کی شاعری سوا اس کے محاسن و معائب کچھ تو عرض کیے ہی جا چکے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی کہہ دوں کے باوجود تضع اور مبالغہ کے اور باوجود آج سے سو برس پہلے کا لکھنوی شاعر ہوتے ہوئے بھی ابتذال سے جتنا ناسخ کا کلام پاک ہے اُتنا آتش کا بھی نہیں۔ تصنع اور خارجیت اس میں شک نہیں ناسخ کے یہاں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں، لیکن ناسخ کے اندازِ بیان میں جو صفات ہیں وہ کامیاب داخلی شاعری کے لیے کہاں تک کارآمد ہو سکتے ہیں یا وہ داخلی شاعری کی جھلک کہاں تک دکھا سکتے ہیں۔ اس پر شاید بہت کم غور ہمارے نقادوں نے کیا ہے۔

شب فرقت میں شمع کا کیا ذکر
زندگی کا چراغ بھی گل ہے

رو ٹھے ہوئے تھے آپ کئی دن سے من گئے
بگڑے ہوئے تمام مرے کام بن گئے

شبِ فراق گئی، روزِ وصل آ پہنچا
طلوعِ صبح ہے عالم تمام روشن ہے

جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ببولوں کی
عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی

ایسے اشعار کہنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ اشعار ہیں جنھیں میر، غالب اور اقبال بھی اپنے مجموعے میں شامل کرنا فخر سمجھتے۔ ناسخ اگر چاہتا تو ایسے اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد کہہ ڈالتا، لیکن وہ آیا تھا زبان کو سنوارنے، صرف زبان کا ہو کر رہ گیا اور شاعری کو بھول گیا۔

(شاعر اور نقاد فراق گورکھپوری کے مضمون سے اقتباسات)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں