بیگم اشرف عباسی کا نام پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر کے طور پر درج ہے۔ ان کی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی اور ذوالفقار علی بھٹو انھیں سیاست کے میدان میں لائے تھے۔
ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ 1925 میں حکیم محمد سعید خان عباسی کے گھر پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم لاڑکانہ سے حاصل مکمل کرنے کے بعد دہلی اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہیں۔ یہ تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا اور وہ دو بچّوں کی ماں تھیں جب ڈاؤ کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
بے نظیر بھٹو لاڑکانہ کے اس عباسی خاندان پر بہت اعتماد کرتی تھیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک پر عملی سیاست میں قدم رکھنے والی اشرف عباسی 1962ء میں صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور 1973 میں قومی اسمبلی میں پہنچیں جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ اس کمیٹی کی بھی رکن رہیں جس نے 1973 کا آئین مرتب کیا تھا۔ 1977 کے انتخابات ہوئے تو بیگم اشرف عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے بعد محکمۂ بلدیات کا قلمدان سونپا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں سیاسی اور عوامی جدوجہد کرنے والے راہ نماؤں اور کارکنوں کے ساتھ انھوں نے بھی متعدد مرتبہ نظر بندی اور قید جھیلی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور مختلف مواقع پر احتجاج کی قیادت کے دوران انھوں نے بھی لاٹھی چارج اور دوسری مشکلات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہیں۔
سندھ میں بحالیٔ جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو بیگم اشرف عباسی بھی اگلی صفوں میں رہیں اور اسی پاداش میں 14 ماہ جیل میں بھی گزارنے پڑے۔
1988ء کے عام انتخابات میں وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ عملی سیاست سے دور ہوجانے کے بعد بیگم اشرف عباسی کئی جامعات کی سینڈیکیٹ ممبر اور ’شہید ذوالفقار بھٹو انسٹیٹیوٹ‘ لاڑکانہ کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا اور اس پلیٹ فارم سے مستحق اور نادار خواتین کی امداد کی جاتی تھی۔
بیگم اشرف عباسی نے اپنی سیاسی زندگی اور ذاتی حالات اور واقعات پر مشتمل ایک کتاب سندھی زبان میں ’جیکی ھلن اکیلیوں‘ کے عنوان سے تحریر کی جس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا۔ بیگم اشرف عباسی نے 2014ء میں آج ہی کے دن 89 برس کی عمر میں وفات پائی۔