تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

کُشتی کا وہ مقابلہ جس نے بھولو پہلوان کو رستمِ پاکستان بنا دیا

17 اپریل 1949 کو جب دھوپ ڈھلی تو کراچی کے پولو گراؤنڈ میں ایک ایسا مقابلہ ہوا جو یادگار بن گیا۔

پنڈال شائقین سے بھرا ہوا تھا اور اکھاڑا پہلوانوں کا منتظر۔ یہ کُشتی کا ایک مقابلہ تھا۔ لاؤڈ اسپیکر پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ بھولو پہلوان اور یونس پہلوان کے درمیان دنگل شروع ہونے والا ہے۔ مہمانِ خصوصی اُس وقت کے گورنر جنرل تھے اور اکھاڑے کے فاتح کو ‘‘رستمِ پاکستان’’ کا خطاب ملنا تھا۔ بھولو اور یونس دونوں یہ اعزاز اپنے نام کرنے کے لیے بے تاب تھے۔

ملک کی تاریخ کے اس مشہور اور یادگار دنگل کا احوال اختر حسین شیخ نے اپنی کتاب ’’داستانِ شہ زوراں‘‘ میں رقم کیا ہے۔ آپ کی دل چسپی کے لیے کشتی کے مقابلے کی وہ روداد پیش ہے۔

‘‘ خواجہ ناظم الدین اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ فرائضِ منصفی میجر جنرل اکبر خان نے سرانجام دیے۔ دونوں پہلوان کچھ عرصہ قبل لاہور میں ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگا چکے تھے۔ یونس پہلوان کے لیے یہ مقابلہ گزشتہ داغِ شکست کو دھونے کے مترادف تھا تو بھولو کو اپنی برتری قائم رکھنا تھی۔ علاوہ ازیں رستمِ پاکستان کا معاملہ بھی تصفیہ طلب تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر دونوں شہ زوروں نے تیاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ مہمان خصوصی پانچ بجے شام کشتی گاہ میں تشریف لائے۔

رستمِ زماں گاما، رستمِ ہند امام بخش اور حمید ارحمانی نے بصد احترام استقبال کیا۔ بھولو پہلوان نے بطورِ خاص ہاتھ ملایا۔ یونس پہلوان بھی پنڈال میں موجود تھا۔ تھوڑی دیر تک خواجہ صاحب دونوں پہلوانوں سے مصروفِ گفتگو رہے اور دونوں کے ڈیل ڈول کو ستائش بھر ی نظروں سے دیکھتے رہے۔

دونوں شہ زور اکھاڑے میں اترے تو ہجوم نے تالیوں اور فلک شگاف نعروں سے استقبال کیا۔ رسومِ پہلوانی ادا کرنے کے بعد دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ کشتی کے اٹھارہویں منٹ میں بھولو نے حریف کو صاف چت کر دیا۔ منصف نے بھولو کو فاتح قرار دے کر رستمِ پاکستان کا اعلان کیا تو تماشائیوں نے دلی مسرت کا اظہار کیا۔ خواجہ عبدالحمید انکم ٹیکس کمشنر، سائوتھ زون نے بھولو کی دستار بندی کی۔

بھولو پہلوان کو اہلِ کراچی کی جانب سے سونے کا تاج بھی پہنایا گیا تھا۔

کسی زمانے میں کسرت کو ایک صحت مند رجحان، پہلوانی کے شوق کو قابلِ فخر اور کُشتی لڑنے کو ایک فن مانا جاتا تھا۔ بھولو کا تعلق ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا اور ان کے والد اور چچا پہلوانی اور کُشتی میں نام ور تھے۔ ان کا اصل نام منظور احمد تھا۔ وہ امرتسر کے تھے، ان کا سن پیدائش 1927 ہے۔

اپنے وقت کے اس طاقت ور انسان، شہ زور اور دنگل کے داؤ پیچ کے خوگر پہلوان کو 1985 میں موت نے پچھاڑ دیا۔ وہ مارچ کی آٹھ تاریخ تھی جب بھولو پہلوان ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے۔

Comments

- Advertisement -