اسلام آباد: ملک میں شجر کاری منصوبوں کے سلسلے میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سندھ اور خیبر پختون خوا پر اظہار برہمی کیا، عدالت نے بلین ٹری منصوبے کے تحت درخت لگانے کی عدالتی تصدیق کا بھی عندیہ دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 10 بلین ٹری سونامی منصوبہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے منصوبے کی تمام تفصیلات طلب کر لیں، سپریم کورٹ نے کہا آگاہ کیا جائے منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے، فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی معہ ریکارڈ پیش کیا جائے۔
کتنے درخت کہاں لگے، سپریم کورٹ نے تمام تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کرنے کا حکم جاری کر دیا، سپریم کورٹ نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے سٹیلائٹ تصاویر بھی منگوا لیں، نیز سپریم کورٹ نے کلر کہار کے اطراف پہاڑوں پر کمرشل سرگرمیاں روکنے کا حکم دے دیا۔
پہاڑوں سے متعلق عدالت کو بتایا گیا کہ نجی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا نجی ملکیتی پہاڑ ہیں تو بھی قدرتی حسن متاثر کرنے کی اجازت نہیں، پنجاب حکومت کمرشل سرگرمیاں ختم کرا کر پہاڑوں پر درخت لگائیں۔
سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی ناہید درانی نے عدالت کو بتایا کہ ایک سال میں 430 ملین درخت لگائے جا چکے ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے ناہید درانی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کیا آپ نے 430 ملین درخت لگے دیکھے ہیں؟ ناہید درانی نے بتایا کہ یہ دیکھنا ممکن نہیں ہے کہ تمام درخت لگے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ 10 ارب درخت لگنا ناقابل یقین بات ہے، اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی، عدالت نے بلین ٹری منصوبے کے تحت درخت لگانے کی عدالتی تصدیق کا بھی عندیہ دیا، چیف جسٹس نے کہا ملک بھرمیں مجسٹریٹس کے ذریعے درخت لگنے کی تصدیق کرائیں گے۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الحسن نے محکمہ جنگلات سندھ کے حکام کی بھی سرزنش کی، انھوں نے ریمارکس میں کہا سندھ میں جو بھی فنڈز جاتے ہیں چوس لیے جاتے ہیں، جتنا بھی فنڈ چلا جائے لگتا کچھ نہیں، انسانوں کا جینا مشکل ہے تو درخت کیسے رہیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سندھ میں ڈاکو پکڑنے کے نام پر لاڑکانہ کے قریب جنگل کاٹاگیا، سندھ پولیس ڈاکو تو کیا ایک تتلی بھی نہیں پکڑ سکی، پورے پورے جنگل صاف ہوگئے مگر پکڑا کوئی نہیں گیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا نہروں، دریاؤں کے اطراف درخت عدالت نے لگوائے، بلین ٹری سونامی منصوبے کے درخت کہاں گئے؟ سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے بتایا کہ بلین ٹری منصوبے پر عمل صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا صوبے آپ کی بات سنتے ہی کہاں ہیں، بلوچستان میں تو بلین ٹری منصوبے کا وجود ہی نہیں۔
عدالت میں سیکریٹری ماحولیات خیبر پختون خوا کی بھی سرزنش کی گئی، جسٹس اعجاز الحسن نے کہا اسلام آباد پشاور موٹر وے پر درختوں کا وجود ہی نہیں، ملک کی کسی ہائی وے کے اطراف درخت موجود نہیں، کلر کہار کے اطراف پہاڑوں سے درخت کاٹ دیے گئے، اور اب وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں۔
جسٹس اعجاز نے کہا بلین ٹری منصوبے سے متعلق دعوے کے شواہد بھی دیں، کیا بلین ٹری منصوبہ کی تصدیق بھی کرائی جا رہی ہے ؟ عدالت نے بلین ٹری منصوبے کے تحت درخت لگانے کی عدالتی تصدیق کا عندیہ دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر سیکریٹری پلاننگ اور چاروں صوبائی سیکریٹریز جنگلات کو طلب کر لیا، سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت ایک ماہ بعد ہوگی۔