ہندوستان کے بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتن بہت مشہور ہیں۔ ان نو رتنوں میں سے بیربل نامی ایک ذہین، باتدبیر اور حاضر جواب نو رتن کا تذکرہ بہت کیا جاتا ہے جس سے اکبر بہت خوش رہتا تھا اور اسے اپنے قریب رکھتا تھا۔
اکبر اور بیربل سے کئی واقعات منسوب ہیں جب کہ بہت سے قصّے اور حکایات کتابوں میں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں اکثر و بیش تر جھوٹی اور من گھڑت ہیں۔ یہ محض ہماری تفریحِ طبع اور دل لگی کا سامان ہیں۔ یہ ایک ایسا ہی قصّہ ہے۔
ایک مرتبہ بیربل سے حسد کرنے والوں نے دیکھا کہ بادشاہ خوش گوار موڈ میں ہے تو اس کے سامنے اپنے دل کی بات رکھ دی۔ عرض کیا کہ فرمائیں آخر اکبر بادشاہ بیربل سے ہی کیوں اس قدر انس کا اظہار کیا کرتے ہیں؟ جب کہ نو رتن میں کوئی کسی سے کم تو نہیں ہے۔ اکبر اعظم نے مصاحبوں سے کہا، کسی روز اس کا انکشاف کر دیا جائے گا۔ غرض بات آئی گئی ہوگئی۔
ایک روز بادشاہ دریا کی سیر کا پروگرام بنا۔ بادشاہ سلامت اپنے رفقا و مصاحبین کے ساتھ دریا کی سیر کو نکلے۔ بیربل بھی ساتھ تھا۔ راستے میں اچانک اکبر نے پوچھا:
”ارے بیربل امبیا کھاتے ہو؟“
”جی حضور!“ بیربل نے جواب دیا۔
یہاں بات پھر آئی گئی ہوگئی۔ ایک سال بعد پھر بادشاہ نے دریا کی سیر کا قصد کیا۔ سب کشتی میں سوار ہوئے اور یہ وہی مقام تھا جہاں سے وہ سال بھر پہلے گزرے تھے اور اکبر نے بیربل سے سوال پوچھا تھا۔ اچانک اکبر نے بیربل کو بلند آواز سے مخاطب کر کے پوچھا،
کاہے کے ساتھ بیربل؟
بیربل نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا:
نمک کے ساتھ حضور….!
تب، اکبر نے مسکراتے ہوئے اپنے دوسرے مصاحبین کو دیکھا اور کہا کہ بیربل کی یہی ذہانت اور حاضر جوابی ہمیں پسند ہے۔ شاید آپ فراموش کرچکے ہیں کہ ہم نے پچھلی سیر کے دوران بیربل سے سوال کیا تھا کہ ”کیا امبیا کھاتے ہو؟“ ایک سال بعد اسی بات سے جڑا ہم نے دوسرا سوال داغا اور بیربل نے فوری جواب دے دیا۔