نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
سب اپنے اپنے خیمے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے، فیونا اور اس کی ممی بھی اپنے خیمے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے کہا: ’’ممی میں چند منٹوں کے لیے دوربین سے یہاں کا نظارہ کرنا چاہتی ہوں، بس ابھی واپس آ جاؤں گی، ٹھیک ہے؟‘‘
مائری نے ٹھیک ہے کہہ کر سر اثبات میں ہلایا، فیونا باہر نکل گئی اور وہ سلیپنگ بیگ پھیلانے لگییں۔ فیونا سوچ سمجھ کر باہر نکلی تھی، اس نے ڈھلوان پر پہنچ کر دوربین آنکھوں سے لگایا اور رات کی تاریکی میں جنگل، پہاڑیوں اور درختوں کے گہرے سایوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ آخر کار وہ چونک اٹھی: ’’یہ کیا ہے؟ اوہ یہ تو ایک کار ہے۔‘‘ اس نے دوربین میں غور سے دیکھا تو اسے ڈریٹن بھی کار میں پچھلی سیٹ پر سوتا نظر آ گیا۔ فیونا کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ طاری ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور کیمپ گراؤنڈ کے آس پاس موجود ریچھوں، راکون بندروں، چوہوں اور گلہریوں کو پکارا، اور انھیں حکم دیا کہ وہ گاڑی میں موجود لڑکے کے گرد جمع ہو کر اسے ڈرائے، تاہم اسے زخمی نہ کرے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو درختوں کے درمیان تیز سرسراہٹیں سنائی دینے لگیں، مختلف جانور ڈریٹن کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ دوربین میں یہ نظارہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک اسے کندھوں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اور وہ اچھل پڑی۔
’’آپ کیا کر رہی ہیں فیونا؟‘‘ یہ جیک تھا۔
’’مم … میں ستاروں کو دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر جھوٹ بولا۔ لیکن وہ بھول گئی تھی کہ دوربین کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ نیچے جنگل کی طرف تھا۔ جیک کی گھومتی نظروں سے ہار کر آخر اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ ڈریٹن کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ جیک چونک اٹھا اور بولا: ’’ڈریٹن؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ فیونا نے اسے دوربین دے کر ایک طرف اشارہ کیا۔ جیک نے دیکھا کہ ایک ریچھ گاڑی پر کھڑے ہو کر اچھل کود کر رہا تھا، ایک پہاڑی شیر گاڑی کے دروازے پر حملہ آور ہو کر اپنے نوکیلے پنجے اس میں گاڑنے کی کوشش میں تھا۔ اس نے دیکھا کئی بندر اور بڑی گلہریاں اور دیگر کئی جانوروں نے گاڑی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جیک کو بھی دیکھ کر مزا آیا اور اس کے چہرے پر چاند کی روشنی میں مسکراہٹ پھیلی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک انھوں نے ڈریٹن کی خوف زدہ صورت حال کا لطف لیا اور پھر خیموں میں چلے گئے، فیونا نے جیک سے کہا تھا کہ وہ اس کے بارے میں ممی کو ہرگز نہ بتائے۔
۔۔۔۔۔
گاڑی میں بری طرح ہلچل کی وجہ سے ڈریٹن کی آنکھ کھل گئی، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاڑی کے آس پاس ہر قسم کا جنگلی جانور موجود ہے اور گاڑی پر حملہ کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر جانوروں کو دور ہونے کا حکم دینے لگا لیکن کسی نے اس کا حکم نہ سنا۔ وہ غصے سے چیخ چیخ کر انھیں جانے کا کہتا رہا لیکن جانوروں نے اس کی ایک نہ سنی۔ تھک ہار کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک اور رات بے خوابی میں گزرے گی اب۔ اس نے جادوگر پہلان کو آواز دے کر کہا اس سے بری رات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پہلان نے اس کی چیخیں سنیں، تو اس کی حالت پر افسوس کرتا ہوا قلعے کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کہ اس احمق سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس نے کمرے میں سرخ ٹوپیوں والی بد روحوں میں سے تین کو ڈریٹن کی طرف جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جا کر اس کی مدد کرو، جانوروں کو ڈرا کر بھگاؤ اور پھر انسانوں کو خوف زدہ کرو۔ تین بد روح، گھناؤنی شکلیں پہلان کے حکم پر روانہ ہو گئیں۔
بد روحوں نے گاڑی کے آس پاس پھیلے ہوئے جانوروں کو ڈرا کر بھگا دیا۔ بد روحوں کو دیکھ کر ڈریٹن کی بھی روح فنا ہو گئی تھی، اور وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ پتا نہیں پہلان نے انھیں پھر اذیت دینے کے لیے نہ بھیجا ہو۔ بد روحوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ اٹھو اور بتاؤ کہ انسان کہاں پر ہیں، پہلان نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہے۔ ڈریٹن یہ دیکھ کر خوش ہو گیا اور بد روحوں کو بتایا کہ فیونا کا گروپ کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ بد روحیں فیونا اور باقی افراد کی طرف اڑ گئیں جب کہ ڈریٹن پھر گاڑی میں لیٹ کر سو گیا۔