تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

بکنگھم پیلس کے حوالے سے نیا انکشاف

لندن: بکنگھم پیلس کے نسل پرست ہونے سے متعلق نئے انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق برطانوی شاہی محل بکنگھم پیلس کے نسل پرست ہونے پر ایک بار پھر سے بحث شروع ہوگئی ہے، کچھ ایسے دستاویز سامنے آئے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1960 تک رنگ اور نسل کی بنیاد پر آفس جاب کے لیے اقلیتوں اور غیر ملکیوں پر پابندی عائد تھی۔

دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ پیلس میں انتظامی امور کے لیے گندمی یا کالے رنگ کے ملکی اور غیر ملکی افراد کی خدمات نہیں لی جاتی تھیں، گارڈین نے ان دستاویزات کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ نسلی اقلیتوں کے افراد کا ملکہ الربتھ دوم کے لیے کام کرنا ممنوع قرار دیا گیا تھا، اور برطانیہ کے ان قوانین سے مستثنیٰ حاصل تھا جو نسل اور جنس کی تفریق کو روکتے ہیں۔

برطانوی قومی آرکائیوز میں موجود دستاویزات کے مطابق گارڈین نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ ملکہ الزبتھ دوم کے چیف فنانشل منیجر نے 1968 میں سول حکام کو آگاہ کیا کہ شاہی گھرانے کے لیے کلرک کے کام پر رنگ دار تارکین وطن یا غیر ملکیوں کو تعینات نہیں کیا جاتا تھا۔

تاہم ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ یہ روایت 1990 کی دہائی میں ختم ہوگئی تھی کیوں کہ پھر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ملازمت دی جانے لگی تھی، خیال رہے کہ یہ انکشاف شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کے بکنگھم پیلس پر نسل پرستی کے الزامات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔

انھوں نے میزبان اوپرا وِنفرے کے ساتھ اپنے تہلکہ خیز انٹرویو میں کہا تھا کہ شاہی محل میں ان کے بیٹے آرچی کی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ باتیں اس کے رنگ کے بارے میں ہوتی تھیں۔

رپورٹس کے مطابق مذکورہ دستاویزات اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح بکنگھم پیلس نے متنازع شقوں پر مذاکرات کیے، کہ ملکہ برطانیہ کو نسل اور جنس کی تفریق روکنے والے قوانین سے استثنیٰ دیا جائے۔

Comments

- Advertisement -