نیویارک: امریکا میں ایک نئی اور نہایت اہم تحقیق سامنے آئی ہے جس میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟
اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف روچسٹر میڈیکل سینٹر میں کی گئی تحقیق میں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف جسم میں طویل المیعاد قوت مدافعت پیدا ہو سکتی ہے۔
لوگوں کو بہت زیادہ پریشان کرنے والے موسمی نزلہ زکام سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کو وِڈ نائنٹین سے کسی حد تک تحفظ فراہم کر سکتا۔
جریدے ایم بائیو میں شائع تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے متاثر ہونے پر ایسے بی سیلز بنتے ہیں جو طویل عرصے تک جراثیموں کو شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی ان کو یاد رکھتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔
بی سیلز کے بارے میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عموماً کئی عشروں تک برقرار رہتے ہیں، تحقیق میں پہلی بار بی سیلز کی کراس ری ایکٹیویٹی کو بھی رپورٹ کیا گیا، یعنی عام نزلہ زکام پر حملہ کرنے والے بی سیلز بظاہر نئے کرونا وائرس کو بھی پہچان سکتے ہیں۔
ریسرچرز کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان افراد میں کو وِڈ 19 کے خلاف بھی کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے جو عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز سے متاثر ہوتے ہیں۔
یونی ورسٹی آف روچسٹر کے ریسرچ پروفیسر اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف مارک سینگسٹر نے بتایا کہ اس سلسلے میں کو وِڈ نائنٹین سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون کی جانچ کی گئی تھی، جن میں سے متعدد نمونوں میں وہ بی سیلز پائے گئے جو نئے کرونا وائرس کو شناخت کر کے ان کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔
سینگسٹر کی تحقیق کے نتائج کی بنیاد معمولی اور درمیانے درجے کے کو وِڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے 26 مریضوں اور ایسے 21 صحت مند ڈونرز کے خون کے نمونوں کے موازنے پر مبنی تھی جن کے خون کے نمونے 6 سے 10 سال قبل اکٹھے کیے گئے تھے یعنی نئے کرونا وائرس کے سامنے آنے سے بہت عرصہ قبل۔ ان نمونوں میں میموری بی سیلز اور اینٹی باڈیز کی سطح ناپی گئی جو اسپائیک پروٹین کے مخصوص حصوں کو ہدف بناتے ہیں، یہ اسپائیک پروٹین تمام کرونا وائرسز میں پائے جاتے ہیں اور خلیات کو متاثر کرنے کے لیے وائرسز کی مدد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ اسپائیک پروٹین ہر کرونا وائرس میں اگرچہ کچھ مختلف انداز سے کام کرتا ہے، مگر اس کا ایک جز ایس 2 تمام وائرسز میں لگ بھگ ایک جیسا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ میموری بی سیلز (بی سیل کی ذیلی قسم جو طویل عرصے تک برقرار رہتے ہیں) مختلف کرونا وائرسز کے اسپائیک ایس 2 کے درمیان تفریق نہیں کر پاتے اس لیے بلا امتیاز حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
ریسرچ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ بی سیلز کس حد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور یہ کس طرح مریض کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ماہرین کو اب یہ دیکھنا ہے کہ ان بی سیلز کا نئے کرونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی کم شدت کی علامات اور کم مدت کی بیماری سے بھی کوئی تعلق ہے یانہیں۔ اور کیا یہ کرونا ویکسین کی افادیت میں بھی کوئی مدد کر سکتے ہیں یا نہیں۔