تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

وفاقی حکومت نے عمران خان کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ اٹھا دیا

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے پی ٹی آئی چیئرمین کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ اٹھا دیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کراچی سے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے اور عدالت میں عمران خان کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ پچھلےہفتے ایک معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا ہے اور ایک شخص نے اس قانون کو چیلنج کر رکھا ہے جس سے اس نے فائدہ حاصل کیا ہے۔

مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں اس قانون سے کوئی اور مستفید نہ ہو۔ ایک وزیراعظم نے عہدے سے فارغ ہونے پر اپنے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کیا، آئین اجازت نہیں دیتا کہ قانون کا ناقد شخص اسی سے فائدہ لے۔

حکومتی وکیل نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب قانون براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے منافی ہے، نیب ترامیم کیخلاف کیس قیاس آرائیوں پر مبنی لمبی مشق ہے، حکومت نے کل جوائنٹ سیشن میں نیب ترامیم منظور کیں، صدر مملکت نے نیب ترامیم بغیر دستخط کے واپس کیں جس کو پارلیمنٹ نے دوبارہ منظور کیا۔

مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے سوال اٹھایا کہ عمران خان نے نیب قانون پہلے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے یہ نکتہ پہلے بھی بہترین انداز میں اٹھایا تھا درخواست ٹھوس بنیادوں پر مبنی نہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت 184/3 کے مقدمات میں کسی بھی قانون پر جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے، ساری دنیا میں عدالتیں قوانین کو کالعدم قرار دیتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے، انہوں نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث صاحب آپ نیب ترامیم دیکھ کر بتائیں ان میں غلطی کیا ہے۔ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے، بتائیں کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپنے جواب میں مخدوم علی خان کے اعتراضات کا جواب بھی شامل کریں۔

خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں کل تیسری ترمیم کی ہے، نیب قانون میں ریفرنسز واپس ہو کر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے پر ترمیم کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے۔ اگر آپ تیسری ترمیم سے متاثر ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کر لیں، عدالتی فیصلے میں موجود ہے جس کے تحت عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کہتی رہی ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کی ہدایات دینے کا مقصد قانون کو آسان بنانا تھا تاکہ بہتری ہو۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت جلد مکمل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کیس کی آج 46 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ اب تک خواجہ حارث نے 26 جب کہ مخدوم علی خان نے 20 سماعتوں پر دلائل دیے۔ مقدمے کو مزید لٹکانا نہیں چاہتے کیونکہ چھٹیوں میں شاید بینچ دستیاب نہ ہو۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی عدالت عظمیٰ نے درخواست گزار اور وفاقی حکومت کو تحریری گزارشات جمع کرانے کا حکم دیا جس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

Comments

- Advertisement -