اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا ہے کہ چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کرنے کا ایک گڑھ رہا، جس کے بنانے کے لیے 15 ملین ڈالر قرض لیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق آج اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر نے کہا کہ 1991 میں چوہدری شوگر ملز بنانے کے لیے 15 ملین ڈالر قرض لیا گیا لیکن قرض لینے سے قبل ہی شوگر مل کھل گئی اور مشینیں بھی لگ گئیں، یہ مل منی لانڈرنگ کا گڑھ تھا۔
انھوں نے کہا، اسٹیٹ بینک کو بتایا گیا کہ قرض بیرون ملک سے آ رہا ہے لہٰذا رقم اکاؤنٹ میں ڈالی جائے، لیکن اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے پتا چلا کہ کمپنی کا قرض پاکستان پہنچا ہی نہیں، یہ قرض ایل سی کھولنے اور مشینری خریدنے کے لیے لیا گیا تھا۔
[bs-quote quote=”ناصر لوتھا کے نام پر بریک تھرو ہوا ہے، یہ کیس ابھی انویسٹی گیشن انکوائری پر ہے، ناصر لوتھا گواہ کے طور پر تحقیقات میں شامل ہوئے کہ فراڈ ہوا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”شہزاد اکبر”][/bs-quote]
معاون خصوصی نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کے لیے قرضہ مشکوک طریقے سے لیا گیا، یہ پیسہ ڈائریکٹ چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ہم کوئی چیزیں بنا کر لا رہے ہیں، ہم ان کے لیے چیزیں بنا کر نہیں لا رہے، یہ پہلے سے موجود تھیں، یہ ثبوت سامنے آ رہے ہیں، چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کرنے کی جگہ رہی جہاں رقم جاتی تھی۔
انھوں نے کہا قوم کو بتانا ضروری ہے کس طرح سے منی لانڈرنگ کی گئی، ناصر لوتھا کے نام پر بریک تھرو ہوا ہے، یہ کیس ابھی انویسٹی گیشن انکوائری پر ہے، ناصر لوتھا گواہ کے طور پر تحقیقات میں شامل ہوئے کہ فراڈ ہوا ہے۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ 2008 سے مریم نواز کیلبری کوئن کے طور پر مشہور ہیں، ان کو 2008 میں ساڑھے 7 ملین سے زاید شیئر ٹرانسفر کیے گئے، انھوں نے 2010 میں یہ شیئرز یوسف عباس کو ٹرانسفر کر دیے، ناصر لوتھا سے یہ شیئرز 3 سال بعد حسین نواز کو ٹرانسفر کر دیے گئے، وہاں سے یوسف عباس کو ٹرانسفر کر دیے گئے، جب اس معاملے کو کھولنا شروع کیا تو سب سے پہلے رابطہ ناصر لوتھا سے کیا گیا، ان کے پچاس فی صد شیئرز تھے، عباس شریف اس پورے معاملے میں بے چارے لگ رہے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ناصر لوتھا نے کہا مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ میرا پاکستان میں شیئر تھا، یہ ناصر لوتھا کے لیے سرپرائز تھا کہ ان کی پاکستان میں شوگر ملز ہیں، ناصر لوتھا سے ایک اور اہم ڈاکومنٹ ملا، ایک اور ٹی ٹی نکل آئی، ٹی ٹی کے ذریعے 2010 میں یوسف عباس کو رقم ٹرانسفر کی گئی، انھوں نے لوتھا کو بھی لوٹا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ ناصر لوتھا پاکستان آ کر تحقیقات کا حصہ بن گئے ہیں، وہ کہتے ہیں میرے کوئی شیئرز نہیں، تحقیقات میں تعاون کروں گا۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سب سڈی کے لیے آف شور کمپنی بنائی گئی، چوہدری شوگر واحد مل تھی جس کو سبسڈی مل رہی تھی لیکن چینی نہیں بن رہی تھی، یہاں بھی وہی حساب ہے جیسے سندھ میں سبسڈی جا رہی تھی، چوہدری شوگر مل پر ایس ای سی پی نے کام شروع کیا تھا، برطانیہ کو لکھ رہے ہیں کہ اس کیس میں اسٹیٹ استعمال ہوا اس لیے انویسٹی گیشن کریں۔