فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ حکومتی اعتراض کے بعد ٹوٹنے پر چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے اور وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا۔
بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مکالمہ ہوا جس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ پر بار بار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، کیا مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں، جواد ایس خواجہ ایک درویش انسان ہیں۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا جج صاحب پر جانبداری کا کہہ رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراو کا؟ کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ اگر حکومت ایسے ہی الزامات لگائے گی تو کیا ہوگا۔ عدالت کو بدنام نہ کریں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمے داری ہے۔ ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے؟ لوگ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج خود کریں گے۔