چترال میں نہایت نایاب جوہری پتھر سیلابی ریلے سے برآمد ہوا، پتھر کی قیمت کروڑوں ڈالر میں بتایا جاتا ہے۔
چترال میں ایک طرف اگر سیلاب نے کئی گھر اجھاڑ دیئے تو وہاں سیلابی ریلے سے ایک نہایت قیمتی نایاب جوہری پتھر بھی برآمد ہوا، چترال کے بالائی علاقے ملکہو کے نواحی گاﺅں میں ایک مقامی شحص نے بتایا کہ سیلاب نے جہاں اس علاقے میں تباہی مچادی وہاں شائد ان کا قسمت بھی بد ل دے۔
ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کا ریلہ گزرنے کے بعد دریا کے کنارے کوئی چمک دار چیز نظر آئی قریب جاکر دیکھا تو بہت بڑا پتھر پانی میں پڑا تھا، جس پر قدرتی طور پر نقش و نگار بھی نمایاں تھی، اس پتھر کا وزن پندرہ من سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور اسے دس بندوں نے اٹھاکر دریا سے باہر نکالا، اس پتھر پر لکھائی بھی دکھائی دیتی ہے اور اس پر بارہ کے قریب بُرج اور جوہری پتھر اس پر جُڑے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد پتھر ہے، جو دنیا بھر میں اور کہیں بھی دکھائی نہیں دیا ہے، مذکورہ شخص کا کہنا ہے کہ اس پتھر کو خریدنے کیلئے ایک غیر ملکی فرم نے تین کروڑ ڈالر تک پیش کش کی ہے مگر اس نے انکار کیا، ان کی خواہش ہے کہ حکومت پاکستان اس پتھر کو ان سے حرید کر عجائب گھر میں رکھے اور اس پر اس شعبے سے متعلقہ لوگ مزید تحقیق کرے۔
واضح رہے کہ یہ پتھر قدرتی طور پر ایسا بنا ہوا ہے، جس طرح کسی نے پینٹنگ کی ہے اور اس پر محتلف نقش و نگار اور عجیب قسم کی لکھائی بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس پر چھوٹے چھوٹے دیگر سفید اور دیگر رنگوں کے پتھر جڑے ہوئے ہیں جو یوں لگتا ہے کہ اس کے اوپر چسپاں کیا گیا ہو، اس پتھر کے ہر حصے کے مختلف رنگ ہیں۔ سنہرے رنگ کے اس پتھر کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے لاوا ٹھنڈا ہوکر اس نے اپنے ساتھ مختلف جوہری پتھر جوڑے ہوئے ہو ۔
تاہم اس کی اصل حقیقت تو اس وقت معلوم ہوگی، جو اس شعبے کے ماہرین اس پتھر پر تحقیق کرکے بتائے کہ یہ پتھر کتنے لاکھ سال پرانی ہے اور اس پر جو نقشہ بنا ہوا ہے، وہ جس چیز کی عکاسی کرتی ہے، بیضوی نما شکل کا یہ قیمتی پتھر اب کسی ماہر ٹیم کی تحقیق کے انتظار میں پڑا ہے تاکہ اس کا اصل حقیقت سائنسی بنیادوں پر مکمل تحقیق کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔