تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

ہر وقت دکھڑے رونے والوں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کریں

زندگی میں خوش اور مطمئن رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ارد گرد بھی ایسے افراد موجود ہوں جو مثبت خیالات رکھتے ہوں اور زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر رکھیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ارد گرد موجود افراد کو غصہ نہیں آنا چاہیئے، یا انہیں بیزار نہیں ہونا چاہیئے، لیکن جب کوئی جذبہ کسی انسان کی عادت بن جائے تو وہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

ایسی ہی ایک عادت ہر وقت دکھڑے رونے اور شکوے شکایات کرنے کی بھی ہے۔ ویسے تو کسی کے خلاف شکایت کرنا یا دیگر لفظوں میں غیبت کرنا دل کی بھڑاس نکالنے کا آسان ذریعہ ہے، لیکن اگر یہ شکوے شکایات عادت بن جائیں تو ایسا شخص سخت طبی خطرات کا شکار ہوسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ہماری زندگی پر ان افراد کے بھی اثرات ہوتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں یا ہمارا ان سے قریبی تعلق ہوتا ہے، خوش باش اور مثبت خیالات رکھنے والے افراد ہماری زندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں جبکہ شکایتی اور رونے دھونے والے افراد ہماری زندگی میں بھی منفیت بھر دیتے ہیں۔

چنانچہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر آپ کے ارد گرد ایسے شکایتی افراد موجود ہیں تو انہیں فوری طور پر اپنی زندگی سے نکال باہر کریں ورنہ یہ آپ کو سخت طبی خطرات سے دو چار کرسکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر وقت شکوے شکایات کے عادی افراد ہمیشہ ناخوش رہتے ہیں، یہ ہر اچھی چیز میں سے بھی برائی کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیں گے جبکہ ان کا مجموعی رویہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بجائے مسئلے کو تادیر الجھائے رکھنے کا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: اپنے نکمے دوستوں سے جان چھڑائیں

جب ہم اپنا زیادہ وقت ایسے افراد کے ساتھ گزارتے ہیں تو ان کی بدگوئی سن کر سب سے پہلا ہمارا موڈ خراب ہوتا ہے، ہم خود کو بلاوجہ غصے میں محسوس کرنے لگتے ہیں اور ایسے میں ہماری تعمیری کام کرنے کی صلاحیت و استعداد میں کمی واقع ہوتی ہے، باالفاظ دیگر ہم ڈی موٹیویٹ ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گفتگو سن کر ہمارا دماغ اسی ڈگر پر سوچنا شروع کرتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے ہم خود بھی اسی شکایتی مائنڈ سیٹ کے حامل بن جاتے ہیں۔

مستقل شکوے شکایات دل کی بھڑاس نکالنے اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بجائے مزید اسٹریس دینے کا سبب بن جاتے ہیں، اور یہی وہ پوائنٹ ہے جب ہم اپنی صحت کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

مستقل اسٹریس اور ذہنی تناؤ نہ صرف ہمارے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ یہ ہمیں ہائی بلڈ پریشر اور امراض قلب کا شکار بھی بنا سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس کے طبی اثرات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے کہ سگریٹ کے دھوئیں میں وقت گزارنے والے نان اسموکر پر ہوتے ہیں، جو خود سگریٹ نہ پیے لیکن دوسروں کی سگریٹ کے دھوئیں میں وقت گزارنے سے ان سے زیادہ نقصانات کا شکار ہوجائے۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود اس عادت کا شکار ہے تو اپنی صحت کے لیے اس عادت کو ترک کردے، اور اگر ایسے شکایتی افراد میں گھرا ہوا ہے تو اس کے لیے ان سے قطع تعلق کرنا اور دور رہنا ہی بہتر ہے۔

Comments

- Advertisement -