انسانی صحت کے لیے پینے کے پانی کا صرف صاف نظر آنا ہی کافی نہیں، بلکہ پانی میں شامل تمام قدرتی کیمیکلز کا مناسب مقدار ہونا لازمی ہے۔ کوئٹہ کے 52 فی صد پینے کے پانی میں تشویش ناک طور پر ’’ہیڈن پوائزن‘‘ کہلانے والے فلورائیڈ کی غیر متناسب مقدار کا انکشاف ہوا ہے، جو ہڈیوں کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کے بیش تر لوگ یہی پانی پی رہے ہیں۔
بیوٹمز یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائنس میں ہائیڈرو جیو کیمسٹری کے پی ایچ ڈی اسکالر اور استاد تیمور شاہ درّانی نے اس پر 2022 سے 2024 تک تحقیق کی ہے، جس میں گنجان آباد علاقوں کے 100 ٹیوب ویلز سے پانی کے نمونے لیے گئے، جس کا کیمیائی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئٹہ کے شمال مشرقی بالائی علاقوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں 25 فی صد میں فلورائیڈ ضروری مقدار سے کم جب کہ شمال مغربی اور وادی کی وسطی پٹی کے 27 فی صد علاقوں کے پانی میں فلورائیڈ 3.4 ملی گرام فی لیٹر تک زیادہ ہے۔
محقق تیمور شاہ درّانی کے مطابق سریاب، ڈبل روڈ میاں غنڈی، نو حصار سمیت وادی کی وسطی پٹی کے علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے۔
فلورائیڈ کی مقدار کتنی؟
فلورائیڈ کی مقدار پانی میں 0.5 سے 1.5 ملی گرام فی لیٹر ہونا ضروری ہے۔ فلورائیڈ اس مقدار سے زیادہ ہو تو یہ طبعی لحاظ سے زہر تصور کیا جاتا ہے۔ محقق بتا رہے ہیں کہ فلورائیڈ کوئٹہ میں اپنا کام دکھا رہا ہے، اور بچے اور بزرگ نشانے پر ہیں۔
تیمور شاہ نے بتایا کہ فلورائیڈ کی زیادہ مقدار سلو پوائزن کی طرح اثر دکھاتا ہے، کیوں کہ یہ پانی میں بے ذائقہ ہے، ہمیں پانی فلورائیڈ کی مقدار چیک کر کے پینے کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے دوران ہم نے دیکھا کہ جن علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے وہاں بچوں کے دانت زنگ آلود رنگ جیسے ہیں، جب کہ 50 سال کی عمر سے زائد افراد میں ہڈیوں کی بیماریاں بالخصوص گھٹنوں کی تکالیف عام ہیں۔
جدید سہولیات سے مکمل محروم علاقہ، آٹے کی چکی چلانے کے لیے گدھوں کا استعمال
اس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی فلورائیڈ کی کم سے کم مقدار کو طے کرے، اور بلوچستان حکومت شہر میں پانی کے فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرے۔ تیمور شاہ درانی کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہماری آنے والی نسل بھی انہی بیماریوں کے ساتھ بڑی ہوگی اور صحت کے مسائل معاشرے میں عام ہوں گے۔ ہر فرد کے لیے گھر پر فلٹریشن کا نظام لگانا یا فلورائیڈ کو متناسب کرنا ممکن نہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں پینے کے پانی میں ضروری قدرتی کیمیکلز کا جائزہ لے کر انھیں گھروں تک پہنچاتی ہیں۔
اس تحقیق کے لیے پانی کے نمونے ٹیوب ویلز سے 2022 میں بارشوں کے بعد لیے گئے تھے۔ محقق کے مطابق جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو کوئٹہ میں فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، 2016 میں بارشوں سے قبل یعنی طویل خشک موسم کے دوران کی تحقیق میں کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 20 ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی تھی۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔