ہفتہ, مئی 24, 2025
اشتہار

پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی کی جھلستی گرمی میں، جہاں سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے ساتھ کشیدگی جاری ہے، مصدق مسعود ملک امریکانو کافی نوش کررہے تھے۔ حال ہی میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری مقرر ہونے والے مصدق ملک نے وزارت آبی وسائل اور پیٹرولیم کی نگرانی کے اپنے سابقہ عہدے کو چھوڑ کر ایک ایسا کردار سنبھالا ہے جسے وہ ناگزیر اور چیلنجنگ قرار دیتے ہیں۔ اپریل 2025 کی تبدیلی کے بعد اپنے پہلے انٹرویوز میں سے ایک میں، انہوں نے خصوصی طور پر ڈائیلاگ ارتھ سے بات کی۔

ملک پاکستان کے سب سے سنگین ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، “فضائی آلودگی اور اس کا پاکستانی عوام پر اقتصادی اثر۔ پانی کی آلودگی اور اس تک رسائی۔ اور ٹھوس فضلہ (چاہے وہ میتھین ہو یا کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے انتظامات ۔ یہ تین بڑے چیلنجز ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے”۔

لیکن انہیں سب سے زیادہ تشویش پاکستان کے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کی ہے۔ کراچی آنے سے پہلے، سینیٹر ملک کے پہلے سرکاری دوروں میں سے ایک گلگت بلتستان تھا، جو پاکستان کا شمالی ترین علاقہ ہے اور قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ذخائر کا گھر ہے۔ وہ وہاں اقوام متحدہ کے ایک منصوبے کے تحت جاری اقدامات کا جائزہ لینے گئے تھے، جس کا مقصد گلیشیئر جھیلوں کے اچانک بہاؤ (جی ایل او ایف) کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اعداد اپنی حقیقت خود بیان کرتے ہیں، پاکستان میں 13,000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو اسے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے سامنے فرنٹ لائن پر کھڑا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، “آبادی کے بڑھنے کے ساتھ، کمیونٹیاں اب وہیں نہیں رہتیں جہاں ان کے اجداد رہتے تھے۔ اگر وہ ان خطرات کے راستے میں ہوں تو کیا ہوگا؟”

گلگت بلتستان سے تقریباً 2,000 کلومیٹر دور، وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، کراچی میں بالکل مختلف قسم کے موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ ان میں سب سے اہم وفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی خلیج کو پُر کرنا اور صوبوں کے متصادم مفادات کو سمجھنا ہے۔

تباہی کا تماشہ؟
بھارت کی طرف سے مالی امداد روکنے کے سفارتی دباؤ کے باوجود، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس ماہ پاکستان کے لئے ایک نیا قرضہ منظور کیا ہے۔ ایک بیان میں، آئی ایم ایف نے تصدیق کی کہ اس نے پاکستانی حکومت کی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف ) کے تحت درخواست قبول کر لی ہے، جس کے تحت 1.4 ارب امریکی ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی تاکہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔

اگرچہ یہ فنڈنگ ایک اہم مدد ثابت ہوگی، لیکن مالک اس حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہم ابھی تک 2022 کے سیلاب کے دوران پیش آنے والے بہت سے مسائل سے نہیں نکل پائے۔ وعدے کئے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔” انہوں نے مزید کہا، “نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے وعدے کئے گئے تھے، لیکن کیا اس فنڈ میں رقم ڈالی گئی؟ وعدوں کے حجم کو دیکھیں، پھر اصل میں موصول ہونے والی فنڈنگ کو دیکھیں۔”

وہ پوری عالمی ردعمل کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں، “کیا یہ سب صرف ایک تباہی کا تماشہ ہے، جہاں ہم سب مل کر شاندار انگریزی بولتے ہیں اور زبردست تقاریر کرتے ہیں؟”

حال ہی میں، پاکستان نے متعلقہ فریقین سے تباہی اور نقصان فنڈ سے فنڈز کی تقسیم کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ ملک شدید موسمی واقعات اوربتدریج بڑھتے موسمیاتی اثرات کا شکار ہے۔ مالک کہتے ہیں، “میں مایوس نہیں ہوں۔ جو کچھ میں اس وقت کر رہا ہوں وہ لابنگ ہے۔ اور یہ صرف پاکستان کے لئے نہیں، اگرچہ یہ میری پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے، بلکہ میں کمزور طبقات کے لئے، میں موسمیاتی انصاف کے لئے لابنگ کر رہا ہوں۔”

وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے حالیہ بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اپنا موقف رکھا ہے، جہاں انہوں نے موسمی انصاف اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے بھرپور حمایت کی ہے۔ جنیوا کلائمٹ سمٹ سمیت دیگر مواقع پر، انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیات کے نظام میں موجود ناانصافیوں کی سخت الفاظ میں نشاندہی کی۔ وہ چند ممالک کو غیر متناسب فوائد پہنچنے پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “دنیا کے باقی ممالک کا کیا ہوگا؟” اور پوچھتے ہیں، “پاکستان کا کیا ہوگا؟”

پانی کے تنازعات
ملکی سطح پر ماحولیات کے سب سے زیادہ متنازعہ مباحثوں میں سے ایک جنوبی پنجاب کے چولستان کے صحرا میں متعقدہ چھ نہروں کا منصوبہ ہے۔ پاکستان میں پانی ایک نہایت حساس اور سیاسی مسئلہ ہے، جہاں صوبے دریائے سندھ کے نظام میں اپنے حصے کی تقسیم پر طویل عرصے سے متنازعہ رہے ہیں، کیونکہ یہ نظام ملک کی زرعی معیشت کا سہارا ہے۔ اسی پس منظر میں، چھ نہروں کا یہ منصوبہ، جسے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ صوبے کی طرف پانی کے بہاؤ کم ہوجاۓ گا، سخت مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ سندھ حکومت نے پانی کی مقدار میں کمی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے، منصوبے پر مشاورت نہ ہونے پر بھی اعتراض کیا ہے۔

ملک اس تصور کا دفاع کرتے ہیں اور اسے ممکنہ طور پر فائدہ مند قرار دیتے ہیں، لیکن زور دیتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان اعتماد اور شفافیت خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہر صوبے کے پانی کے حقوق کی حفاظت کا ممکنہ حل یہ ہے کہ ہر بین الصوبائی جنکشن پر پانی کی نگرانی کے لئے ایک ٹیلیمیٹری نظام قائم کیا جائے، تاکہ ہر وہ بوند جو بہتی ہے، اس کا حساب رکھا جا سکے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ جب یہ نظام نافذ ہو جائے گا، تو صوبے یہ یقین دہانی کر سکیں گے کہ انہیں اپنے حصے کا پانی “سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مل رہا ہے، نہ کہ انسانی مداخلت سے۔”

تاہم، عوامی مظاہروں اور بڑھتے ہوئے بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے حکام نے اس منصوبے کو اس وقت تک روک دیا ہے جب تک کہ اتفاقِ رائے نہ ہو جائے۔ ملک کہتے ہیں، “ہم صوبوں کی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتے، اور صوبوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔”

ملک پانی کے نظم و نسق میں شفافیت اور جوابدہی کے اپنے عزم کو دہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “کوئی یکطرفہ فیصلہ سازی نہیں ہوگی،” اور مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ایک مضبوط ٹیلیمیٹری نظام حقیقی وقت میں پانی کی نگرانی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گا۔

وفاقی وزیر پانی کی پیداواری صلاحیت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، ایک ایسا تصور جسے ان کے خیال میں پاکستان میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ کہتے ہیں، “زرعی شعبے میں پانی کے استعمال کی پیداواریت میں 3 فیصد بہتری وہی پیداوار دے سکتی ہے جو 30 لاکھ ایکڑ فٹ سیلابی آبپاشی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔” دوسرے الفاظ میں: “زیادہ فصل، کم پانی۔”

ان کے مطابق، توجہ کو آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کو پھیلانے کے بجائے موجودہ پانی کے مؤثر استعمال پر مرکوز کرنا چاہیے۔

جب پاکستان میں بندوں کی تعمیر کے سیاسی تنازعے کے بارے میں پوچھا گیا تو ملک نے مسکراتے ہوئے کہا، “میں اس بند کا نام نہیں لوں گا، ورنہ ‘مجرم’ بنا دیا جاؤں گا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان تازہ کشیدگی اور تصادم کے بعد حال ہی میں اعلان کردہ جنگ بندی کے باوجود، انڈس واٹرز ٹریٹی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ کشمیری علاقے پہلگام پر حملے کے بعد بھارت نے انڈس واٹرز ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا، جس کی پاکستان نے سخت مذمت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “اگر کوئی اختلاف ہو تو پہلا قدم انڈس کمشنرز کے درمیان دوطرفہ بات چیت ہونی چاہیے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہو تو دوسرا راستہ تکنیکی ماہرین کی غیرجانبدارانہ مشاورت ہے۔” “آخری حل ثالثی عدالت ہے، اور یہ طریقہ اس معاہدے میں کام کرتا رہا ہے۔ اور اگر اس معاہدے کی کوئی وقعت نہیں، تو دنیا میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں۔”

ملک کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “معاہدے کی ایک لازمی شرط یہ ہے کہ کمشنرز کو وقتاً فوقتاً ملاقات کرنی ہوتی ہے، جس کی بھارت پہلے ہی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ وہ اتنی معلومات یا ڈیٹا بھی فراہم نہیں کرتا جو اس دوطرفہ نظام میں پانی کے بہاؤ کی تصدیق میں مدد دے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلگام حملے سے پہلے ہی بھارت معاہدے کی شرائط دوبارہ طے کرنے کی بات کر رہا تھا۔ “یہ شک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ کیا پہلگام کو معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ بنایا گیا؟” وہ سوال اٹھاتے ہیں۔

علاقائی کشیدگی سے لے کر عالمی بے عملی تک، ملک پھر سے موسمیاتی تبدیلی کے انسانی نقصانات کی طرف آ تے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ گروپ کے لئے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم اسکولوں اور صحت کے مراکز تک رسائی کھو دیتے ہیں۔ ہماری لڑکیاں اور خواتین ان تباہ کاریوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔”

پھر ایک خاموش لمحے میں، ملک نے معصوم ماضی یاد کرتے ہوئے کہا، ” اپنے بچپن میں ہم اپنے باغ میں جگنو پکڑتے، انہیں بوتلوں میں بند کر کے اندھیرے کمروں میں لے جاتے، مگر پھر باہر آ کر انہیں آزاد کر دیتے تاکہ وہ مر نہ جائیں۔ شام کے وقت تتلیوں کے پیچھے دوڑتے تھے۔ وہ تتلیاں اور جگنو کہاں گئے؟ اب ان کا پیچھا کرنے کون دوڑتا ہے؟ ہرے توتے اور بلبل کہاں ہیں؟ کیا آپ نے انہیں حال میں دیکھا ہے؟” وہ جواب کی توقع نہیں رکھتے۔

ملک کے نزدیک، بتدریج گرم درجہ حرارت کی طرف مائل دنیا کی وجہ سے جو جمالیاتی اور ثقافتی نقصان ہوتا ہے، وہ مادی یا جسمانی نقصان کے برابر ہی گہرا ہے۔ ملک افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ شاعری اور لوک گیت جو کبھی پاکستان کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف میں گائے جاتے تھے، اب معدوم ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “سیلاب اور موسمیاتی آفات صرف مادی نقصان نہیں پہنچاتیں، بلکہ ہماری ثقافت کو بھی چھین لیتی ہیں۔”

(فرح ناز زاہدی معظم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں