تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

ارشد شریف کا قتل : جائے وقوع پر پولیس افسر کو کس نے گولی ماری ؟ یہ معمہ حل نہ ہوسکا

واشنگٹن : امریکی چینل سی این این کا کہنا ہے کہ کینیا پولیس کے متضاد بیانات شک و شبہات بڑھا رہی ہے ، جائے وقوع پر 4 میں سے ایک پولیس افسر کو کس نے گولی ماری ؟ یہ معمہ حل نہ ہوسکا۔

تفصیلات کے مطابق صحافی ارشد شریف کی کینیا میں قتل کی تحقیقات جاری ہے، ارشد شریف قتل کیس پر سی این این کی خصوصی رپورٹ جاری کردی۔

سی این این کے نمائندے کا کہنا ہے کینیا پولیس کے متضاد بیانات نے مزید سوالات اٹھا دئیے ہیں ، پولیس جو بیانات دے رہی ہے اس کی کوئی منطق نہیں ہے، ان وضاحتوں سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

نمائندہ سی این این نے بتایا کہ کینین پولیس کا کہنا ہے اب تک پندرہ افراد کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں جن میں دس شہری اور پانچ پولیس اہلکار ہیں۔

سی این این کے نمائندے نے بتایا چار میں سے ایک پولیس اہلکار کو گولی لگی، حملے کی جگہ خون بھی دیکھا، مگر یہ معمہ ہے کہ پولیس اہلکار پر گولی کس نے چلائی؟

نمائندے کا کہنا تھا کہ کینیا انڈی پینڈنٹ پولسنگ اور سائٹ اتھارٹی کے سی ای او نے بتایا کہ ہم صرف یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ فائرنگ کس صورتحال میں ہوئی۔

والدہ شہید ارشد شریف نے امریکی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان پر یقین نہیں،ارشد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

ارشد شریف کی بیوہ کا کہنا تھا کہ ارشد شریف نے انہیں بتایا تھا کہ وہ کہیں چھپے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی جان کوخطرہ ہے، انھیں قتل کیاجاسکتا ہے۔

ارشد شریف اہل خانہ نے پاکستان اورکینیا میں انصاف نہ ملنے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی صحافتی اداروں سے انصاف کی اپیل کی ہے۔

خیال رہے ارشد شریف کو تئیس اکتوبر میں کینیا کے شہر نیروبی کے قریب فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا تھا، کینیا اور پاکستان میں ان کے قتل سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔

Comments

- Advertisement -