کراچی: کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کے اقبالی بیان میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت، جوڈیشل کمپلیکس میں جمع کرائے گئے 164 کے اقبالی بیان میں لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے سابق صدر آصف زرداری، اویس مظفر ٹپی، شرجیل میمن اور قادر پٹیل و دیگر کے بھی راز کھول دیے ہیں۔
رینجرز اہل کاروں کے قتل کیس میں جمع اقبالی بیان میں عزیر بلوچ نے ایرانی خفیہ ایجنسی کو پاکستان کی حساس معلومات دینے کا بھی اعتراف کیا، اقبالی بیان کے آخری حصے میں عزیر نے کہا کہ ایران کو کراچی کے حساس اداروں کے اعلیٰ افسران کے نام اور رہائش گاہوں کی معلومات بھی دی۔
عزیر بلوچ نے کہا اویس مظفر ٹپی کو آصف زرداری کے لیے 14 شوگر ملوں پر قبضے میں مدد کی جو کہ کم پیسے دے کر خریدی گئیں، میں نے آصف زرداری کے کہنے پر اپنے گروہ کے 15 سے 20 لڑکے بلاول ہاؤس بھیجے، لڑکوں نے بلاول ہاؤس کے گرد و نواح میں 30 سے 40 بنگلے اور فلیٹ زبردستی خالی کرائے، ان بنگلوں اور فلیٹس کو خریدنے کے لیے آصف زرادری نے انتہائی کم قیمت ادا کی۔
اعترافی بیان میں گینگ وار سرغنہ نے کہا ایرانی خفیہ ایجنسی کے حاجی ناصر کے ساتھ میں ایران گیا تھا، اس نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کرائی، ایرانی خفیہ ایجنسی نے میری حفاظت کی ضمانت دی اور بدلے میں مجھ سے معلومات دینے کا مطالبہ کیا، جس پر میں راضی ہوگیا۔
میں نے ایرانی انٹیلی جنس کو کراچی میں آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران اور اہم تنصیبات کے نام بتائے، کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا، اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشان دہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمد و رفت کا بھی بتایا۔
عزیر نے بیان میں کہا میں نے کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی تنصیبات سے متعلق معلومات دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔
عزیر نے کہا اس بیان کے بعد مجھے خدشہ ہے کہ آصف زرداری اور جن لوگوں کا میں نے نام لیا وہ مجھے اور اہل خانہ کو جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر عزیر بلوچ کے 164 کے بیان پر متعلقہ مجسٹریٹ کو طلب کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ 164 کے بیان کا گواہ خود جج ہوتا ہے، کیوں کہ اس بیان سے قبل کمرہ عدالت سے تمام افراد کو باہر بھیج دیا جاتا ہے اور ملزم جج کے سامنے اپنا بیان دیتا ہے، اور عزیر نے یہ بیان 2016 میں مجسٹریٹ کے سامنے دیا تھا۔