تازہ ترین

پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ، براہ راست دیکھیں

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

ملک میں بیک وقت انتخابات کیس، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں کیا موقف پیش کیا؟

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت پر سیاسی جماعتوں کے نمائندے پیش ہوئے اور اپنا اپنا موقف پیش کیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت دوسرے روز بھی جاری ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ اب تک کی سماعت میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، مسلم لیگ عوامی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندے پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کے سینیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے استفسار کیا کہ جو ہماری تجویز ہے کیا آپ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری جماعت نے ہمیشہ آئین کی بات کی ہے اور ہمیں آپ کے ہر لفظ پر اعتماد ہے۔ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا، اس کا ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی۔ آئین 90 روز کے اندرا نتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے اور ہم کسی کی خواہش نہیں بلکہ آئین کے تابع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین کا تحفظ کیا۔ آج ہم تلخی کے بجائے آگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے ہی مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں جب طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو پھر انتخابات ہونے چاہیئں۔ ن لیگی قیادت نے کہا الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ لیکن ن لیگ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اپنے ہی فیصلے سے مُکر گئی۔

شاہ محمود نے کہا کہ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی۔ عدالت نے 27 اپریل تک فنڈز فراہمی کا حکم دیا ہے۔ عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کیے گئے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے لیکن مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہوسکتے۔ مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیر بحث ہیں۔ اعتماد کا فقدان ہے کہ کہیں مذاکرات حکومت کا تاخیری حربہ تو نہیں ہے۔ انتشار چاہتے ہیں اور نہ ہی آئین کا انکار۔ حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے۔ مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے۔ عمران خان کی طرف سے یہاں کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی قیادت سے مشورے کے بعد وہ عدالت حاضر ہوئے ہیں۔
ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ الیکشن پورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ انتخابات پر مذاکرات کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے۔ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاستدانوں کو خود بات کرنی چاہیے۔ عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغل گیر ہوئے ہیں۔ میڈیا پر جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔

سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کرینگے، عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی اور ماریں بھی کھائی ہیں۔ آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے۔ آئین بنانے والے اسکے محافظ ہیں اور آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ ماضی میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے بھی آگے گئے۔ یقین دہانی کراتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کرینگے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ آج بھی آئین ہی ملک کو بچا سکتا ہے۔ آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے۔ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا۔ اس وقت سعودی اور امریکی سفیروں نے مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن ناکام ہوئے اور مارشل لا لگ گیا۔ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی لڑائی سے مارشل لا لگا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آج بھی ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے۔ امریکا، ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اپنا گھر سیاستدانوں نے خود ٹھیک کرنا ہے۔ پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا۔ آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ پی ٹی آئی کیساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کیساتھ ہیں۔ ہمارا مؤقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو لیکن سیاسی لڑائی کانقصان عوام کو ہے جو ایک کلو آٹے کے لیے محتاج ہیں اور ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ان کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہوچکی ہے۔

اس موقع پر سراج الحق نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں جس پر چیف جسٹس نے پشتو میں جواب دیا کہ میں پشتو سمجھتا ہوں لیکن ہم پر کوئی لیبل نہ لگائیں، ہم پاکستانی ہیں۔

سراج الحق نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے۔ بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا۔ عدالت یہ معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے۔ عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کی۔ عمران خان کو کہا کہ نہیں چاہتا کہ ملک میں دس سال مارشل لا لگے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ بھی ایسا نہیں چاہتے۔ مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں لیکن کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے۔ 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے ہیں تو 205 دن پر بھی ہوسکتے یہں۔ ہر کسی کو اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے۔ مسائل کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے غیر سیاسی نہیں ہوئے۔

پاکستان مسلم لیگ عوامی کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدان مذاکرات سےکبھی نہیں بھاگتا مگر یہ بامعنی ہوں۔ دیکھیے گا کہ مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکٹھی نہ ہوجائیں۔ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے اور عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔ ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔

مسلم لیگ ق کی جانب سے طارق بشیر چیمہ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ پہلے دن سے چاہتے تھے کہ مذاکرت کا عمل شروع ہو۔ ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہونا چاہئیں، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کر دیگا۔ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ فیصلہ کرینگے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کرینگے تو پھر سب کیلئے بہتر ہوگا۔

وفاقی وزیر اور ن لیگی رہنما ایاز صادق میں عدالت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا۔ پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے اور آئندہ بھی رہے گا
عدالت میں ایم کیو ایم کے صابر قائمخانی، اسرار ترین اور دیگر نے بھی اپنی اپنی جماعتوں کا موقف پیش کیا۔

Comments

- Advertisement -