جنوبی افریقا سمیت دیگر ممالک میں کرونا کی نئی قسم کے کیسز سامنے آئے ہیں، جس کے بعد مختلف ملکوں نے سفری پابندیاں عائد کردیں۔
ابتدائی طور پر کرونا وائرس کی سامنے آنے والی نئی قسم کو B.1.1.529 (بی ون) کا نام دیا گیا ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے اسے ’این یو‘ کا نام دیا، اس نئی قسم کو پہلے سے زیادہ طاقت ور اور متعدی قرار دیا جارہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ نئی قسم گزشتہ برس سردیوں میں ہونے والی ہولناکیوں کی طرح ثابت ہوسکتی اور دنیا کے تمام ممالک کو متاثر کرسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق وائرس کی یہ قسم ماضی کے مقابلے میں سامنے آنے والی اقسام سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔
کرونا کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد مختلف سوالات سامنے آئے، جن میں سب سے اہم اور پہلا یہ ہے کہ کیا ویکسین لگوانے والے بھی اس ویریئنٹ کا شکار ہوسکتے ہیں؟، اس کا انفکیشن کیسا ہوتا اور علامات کیا ہیں؟ کیا یہ زیادہ سنگین بیماری ہوسکتی ہے اور وبا کے پھیلنے کی رفتار کتنی ہے۔؟
مزید پڑھیں: کرونا کی نئی قسم پھیلنے کی وجہ مخصوص فیس ماسک قرار
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقا کے ماہرین نے اس حوالے سے ابتدائی رپورٹ تیار کر کے عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کو بھیج دی ہے۔ جس پر دیگر ماہرین کام کر کے اس قسم کے حوالے سے تحقیق کررہے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ 8 ہفتوں کے بعد ہی کرونا کی اس نئی قسم کے بارے میں کوئی مصدقہ بات کرسکیں گے۔
کیا کرونا کی نئی قسم زیادہ مہلک اور خطرناک ہے؟
جنوبی افریقا میں کرونا کی نئی قسم کے چند کیسز گزشتہ ہفتے کے دوران سامنے آئے، جس پر ماہرین نے تشویش کا اظہار تو کیا ہے مگر اُن کا ماننا ہے کہ ابھی یہ وائرس اس قدر تیزی سے نہیں پھیلا، گواتینگ صوبہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
جنوبی افریقا کے علاقے افریقی خطے میں 90 فیصد کیسز سامنے آئے ہیں، جس کی بنیاد پر طبی و سائنسی ماہرین اسے تیزی سے پھیلنے والا اور متعدی وائرس قرار دے رہے ہیں۔
کرونا میں ہونے والی جینیاتی تبدیلی سے ماہرین بھی حیران
ماہرین کے مطابق کرونا کی نئی قسم ’این یو‘ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے، جس کی بنیاد پر خدشہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں پھیل جائے گی۔ طبی ماہرین کے مطابق کرونا میں ہونے والی جینیاتی تبدیلی غیر متوقع اور غیر معمولی ہے کیونکہ یہ توقعات سے زیادہ تبدیل ہوچکی ہے اور پروٹین کو نشانہ بنا کر مدافعتی نظام کو صرف متاثر نہیں بلکہ مردار بنا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان
اسے بھی پڑھیں: کرونا کی ایک اور نئی قسم سامنے آگئی
پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا نے بتایا کہ نئی قسم میں مجموعی طور پر 50 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئیں جبکہ اس میں موجود مخصوص سپائک پروٹین، جس کو ویکسین نشانہ بناتی ہے، اس میں 30 جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں، جن میں سے دس ایسی ہیں جو انسانی جسم پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل کرونا کی سامنے والی قسم ڈیلٹا میں صرف دو جینیاتی تبدیلیاں پائی گئیں تھیں۔
جینیاتی تبدیلی خطرناک ہوسکتی ہے؟
سائنسی ماہرین مانتے ہیں کہ وائرس مین ہونے والی جینیاتی تبدیلیاں ہر بار خطرناک ثابت نہیں ہوسکتیں مگر اس بات کا جاننا ضروری ہوتا ہے کہ وائرس کس انداز سے تبدیل ہوا۔