دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل کرنسی کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان میں گھریلو خواتین کی ایک معقول تعداد سائیڈ بزنس کے طور پر بٹ کوائن یا ایسی دیگر ڈیجیٹل کرنسیز میں سرمایہ کاری کرنے کی متمنی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق آن لائن ڈیجیٹل کرنسیاں پاکستان میں غیر قانونی نہیں ہیں، عالمی سطح پر ان کی مانگ اور مقبولیت میں روز اضافہ ہونے کے باوجود زیادہ تر لوگ اس سے متعلق کم ہی جانتے ہیں، دوسری طرف کچھ لوگوں کی کوششوں سے پاکستان میں یہ ورچوئل کرنسیاں مقبول ہوتی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں آن لائن ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے وابستہ 38 سالہ غلام احمد ہفتے میں ایک مرتبہ لوگوں کو کرپٹوکرنسی کی ٹریڈنگ اور اس کے شئیرز کی خرید و فروخت کے حوالے سے مفت مشورے دیتے ہیں۔
اسلام آباد کے رہائشی غلام احمد نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے، جس کے ممبران کی تعداد سینکڑوں میں ہے، ڈیجیٹل کرنسیوں کے ماہر احمد ایک ہفتے میں ایک بار اس گروپ میں شریک ہوتے ہیں اور لوگ ان سے آن لائن کرنسیوں کے استعمال اور تجارت کے بارے میں مشورے لیتے ہیں۔
احمد کے واٹس ایپ گروپ میں گھریلو خواتین کی ایک معقول تعداد ہے، جو سائیڈ بزنس کے طور پر بٹ کوائن یا ایسی دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، تاہم بہت سی ممبران روایتی اسٹاک مارکیٹ کی پیچیدگیوں سے لاعلم ہیں لیکن عالمی بُوم کی وجہ سے اب وہ اس کاروبار میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ گروپ میں لوگ کرپٹوکرنسی کے بارے میں بے تحاشا سوالات کرتے ہیں، لوگ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، اور وہ کئی گھنٹوں تک لوگوں کو بنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ مفید مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔
غلام احمد نے 2014 میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیا تھا اور آن لائن ڈیجیٹل کرنسی کی صنعت میں قدم رکھا تھا، ان کو یقین تھا کی یہ ایک منافع بخش کاروبار ثابت ہوگا اور ہوا بھی ایسے ہی، آج وہ فخر کے ساتھ اپنے اس فیصلے کو اپنی زندگی کا ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں بھی تیزی کے ساتھ ڈیجیٹل کرنسیز مقبول ہوتی جا رہی ہیں، ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ٹریڈنگ اور مائننگ کے حوالے سے بنائی گئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہزاروں بار دیکھی جاتی ہیں۔
ڈیجیٹل کرنسی اور دہشت گردی
عالمی سطح پر ایسے متعدد کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں بڑے جرائم میں کرپٹوکرنسی کا کردار بھی موجود تھا، بالخصوص ہیکرز کے گروہوں نے بٹ کوائنز میں تاوان کی ادائیگی کروائی، ڈیجیٹل کرنسی ایک طرف مقبول ہو رہی ہے، دوسری طرف ایسے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کہ ان ورچوئل رقوم کو غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے منی لانڈرنگ کے واچ ڈاگ ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ اس صنعت کو بہتر طریقے سے ریگولیٹ کرے تاکہ کوئی بھی انتہا پسند دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال نہ کر سکے۔
حکومت پاکستان نے اس کرنسی کی ریگولیشن کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس میں ایف اے ٹی ایف کے ماہرین اور کچھ وفاقی وزرا کے علاوہ ملکی خفیہ ایجنسیوں کے چیف بھی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کو بھرپور طریقے سے ریگولیٹ کرنے میں وقت درکار ہوگا، چوں کہ اس کی مانیٹرنگ کا طریقہ کار ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا ہے، اس لیے پاکستان میں کئی ادارے اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
غلام احمد کا کہنا ہے کہ ملک کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے دو مرتبہ انھیں گرفتار کیا اور ان پر الزامات عائد کیے کہ وہ منی لانڈرنگ اور الیکٹرانک فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں، تاہم عدالت میں یہ الزامات ثابت نہ ہو سکے۔
یو ٹیوب پر دس لاکھ فالوورز رکھنے والے سابق ٹی وی اینکر وقار ذکا کئی برسوں سے حکام کو راغب کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف ڈیجیٹل کرنسی کی صنعت کو قانونی قرار دے، بلکہ حکومت خود بھی اس میں سرمایہ کاری کرے، جیسا کہ غلام احمد نے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پر چلنے والا کرپٹو کرنسی مائننگ فارم بنایا ہوا ہے۔
غلام احمد کا اصرار ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی مقبولیت اور کاروبار کو روکا نہیں جا سکتا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اس صنعت کی ریگولیشن کے لیے قواعد و ضوابط طے کرے اور دنیا کے ساتھ ہی چلے۔
آن لائن کرپٹو کرنسی ایکسچینجز، جو اکثر پاکستان سے باہر کے ہیں، جیسا کہ Localbitcoins.com، اس میں سیکڑوں پاکستان تاجر لسٹڈ ہیں، جن میں سے چند ہزاروں ٹرانزیکشنز والے ہیں۔