اشتہار

جسم پر پیڑ پودے اُگنے والی خطرناک بیماری، کیا اس کا علاج ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا میں کچھ ایسی نایاب بیماریاں بھی ہیں جو انتہائی خطرناک اور ناقابل علاج ہیں جن میں ایک ٹری مین سینڈروم بھی ہے۔

صحت خدا کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے لیکن دنیا میں کچھ ایسی نایاب بیماریاں بھی ہیں کہ 8 ارب انسانوں میں صرف گنتی کے لوگ ہی اس سے متاثر ہوتے ہیں ان ہی میں ایک ٹری مین سینڈروم نامی بیماری ہے جس سے دنیا میں صرف چند سو افراد متاثر ہیں لیکن یہ اتنی خطرناک ہے کہ زندگی کو بدتر بنا کر رکھ دیتی ہے۔ اس بیماری کا شکار افراد کے چہرے، ہاتھ اور پیروں پر پیڑ پودے اگنے لگتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ انتہائی کرخت ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری کا تاحال کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا ہے۔

اس خطرناک اور نایاب بیماری کا شکار افراد میں ایک بنگلہ دیشی لڑکی شاہانہ ہے جس کو پانچ سال قبل اس بیماری نے 10 سال کی عمر میں آن گھیرا۔ ابتدا میں اس کے چہرے پر درختوں کی چھال جیسا مسّا نظر آیا جب وہ ٹھیک ہونے کے بجائے پھیلنے لگا تو ڈھاکا میں لے جا کر ڈاکٹر کو دکھایا جہاں پتہ چلا یہ وہ ٹری مین سنڈروم نامی بیماری کا شکار ہوچکی ہے اور دنیا میں اس بیماری میں مبتلا ہونے والی پہلی لڑکی ہے۔

- Advertisement -

صرف شاہانہ ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے ابوالباجندر نامی شخص بھی کئی سال سے اس موذی مرض میں مبتلا ہے۔ 2016 میں اس کے ہاتھوں اور پیروں پر درخت جیسے تنوں کی نشوونما شروع ہوئی۔ جس کے بعد وہ کچھ عرصہ اسپتال میں زیر علاج رہا تاہم علاج ادھورا چھوڑ دیا جس کے بعد اس کے جسم پر 10 کلو وزنی تک کے مسے نکل آئے۔ حکومت کی جانب سے مفت علاج کی سہولت کے بعد اب تک یہ 26 سرجریوں سے گزر چکا ہے لیکن مکمل صحتیاب نہیں ہوسکا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک نایاب جنیاتی بیماری ہے جس میں انسانوں میں بالخصوص ہاتھوں اور پیروں میں درختوں کی چھال جیسی ساخت نکلنا شروع ہوجاتی ہے جو انسان کو بے بس کر دیتی ہے اور یہ اتنا تکلیف دہ ہے کہ مریض کے لیے کوئی کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

جینیٹک اینڈ ریئر ڈیزیز انفارمیشن سینٹر کے مطابق یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ دنیا میں کتنے لوگ اس سے متاثر ہیں تاہم 200 سے زائد کیسز رجسٹر ہو چکے ہیں۔ بعض اوقات حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ مریض نہ کھانا کھا پاتا ہے اور نہ ہی ہاتھ سے پانی پی سکتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی کام کرنے کے قابل رہ پاتا ہے۔

جینیٹک اینڈ ریئر ڈیزیز انفارمیشن سینٹر کے مطابق ایسے مریض کا علاج نہیں ہو سکتا۔ سرجری ہی واحد آپشن ہے، جس کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ناپسندیدہ حصے کو نکال دیتے ہیں۔ لیکن یہ بار بار واپس آجاتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے بار بار کاٹنا پڑتا ہے۔ اگر اس مرض کا صحیح علاج نہ کیا جائے تو اس کے کینسر میں تبدیل ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق اس کے علاج میں بہت صبر اور مسلسل علاج کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ بیچ میں ہی مایوس ہوکر بھاگ جاتے ہیں۔ ادویات بند کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات مالی مجبوریاں بھی مجبور کر دیتی ہیں لیکن انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو یہ پورے جسم میں پھیل جائے گا اور پھر بہت مشکل ہوجائے گا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں